ہمارے ہاں جب عقد نکاح ہوتا ہے تو اس وقت ایک رقم طے کی جاتی ہے جسے سودا کہا جاتا ہے ،یہ رواج ہے، مثلا 2 تولہ سونا اور ڈھائی لاکھ روپے، سونا لڑکی کی ملکیت ہوتا اور رقم سے لڑکی کا والد لڑکی کے لیے ضرورت کی اشیا ءخریدتا ہے، مثلا کپڑے برتن کمبل وغیرہ اور بچے ہوے پیسے رخصتی کے وقت خرچ کرتا ہے ، اور باقی لڑکی کا والد اپنے پاس رکھ لیتا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ نکاح کے وقت الگ سے مہر مقرر کرنا ضروری ہے، جیسے دس ہزار یا یہی مہر شمار کیا جائے گا ؟بعض حضرات الگ سے مہر مقرر کرتے ہیں ، اور بعض اسی کو مہر شمار کرتے ہیں ۔
مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں عقد نکاح کے وقت رواج کے مطابق مثلا 2تولہ سونا اور ڈھائی لاکھ روپے لینا شرعی نقطۂ نظر سے جائز نہیں، لہذا اس رسم سے اجتناب کرکےنکاح کے وقت الگ سے مہر مقرر کرنا چاہیے۔باقی اگر بذاتِ خود یہ رقم اور سونا بطور مہر کے ادا کرے،رسم مقصود نہ ہو تو پھر اس کو مہر شمار کرنا درست ہوگا۔
سنن بیہقی میں ہے:
"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس في حجة الوداع، فذكر الحديث، وفيه: " لا يحل لامرئ من مال أخيه إلا ما أعطاه من طيب نفس".
( کتاب الغصب ، باب لا يملك أحد بالجناية شيئا جنى عليه ج: 6 ص: 160 ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"اخذ اهل المراة شيا عند التسليم فللزوج ان يسترده لانه رشوة .
(قول:عند التسلیم)ای بان ابی ان یسلمها اخوها او نحوه حتی یاخذ شیا ،وکذا لو ابی ان یزوجها فللزوج الاسترداد قائما او هالكا لانه رشوة".
(كتاب النكاح ، باب المهر ج: 3 ص: 156 ط: سعید)
الدر المختار میں ہے:
"الرشوۃلا تملک بالقبض".
(کتاب الحظر والاباحة، باب الاستبراء وغيره ص: 668 ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508101472
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن