بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقد شرکت میں نفع کا تناسب طے کیے بغیر اندازے سے نفع دینے کا حکم


سوال

مثال کے طور پراحمد ایک تاجر ہے جس کا سرمایہ دو سے تین کروڑ روپے تک ہے،کاروبار اس کا چل رہا ہے،محمود نے اسے پندرہ لاکھ روپے دیےاور یہ کہا کہ اسے اپنے کاروبار میں شامل کرو تاکہ مجھے نفع ملے،اسی عمر اور خالد نے کچھ نہ کچھ رقم احمد تاجر کو دی کہ ہمارے پیسوں کو بھی اپنے کاروبار میں شامل کرو تا کہ ہمیں بھی نفع ملے،البتہ تینوں میں سے کسی نے بھی یہ وضاحت نہیں کی کہ نفع کو کس تناسب سے تقسیم کیا جائے گا،ایک سال گزرنے کے بعد احمد نے حساب وکتاب کیاتو دیکھا کہ کاروبار میں نفع ہوا تھا،چناں چہ احمد نے تینوں کو بتایا کہ کاروبار میں نفع ہوا ہے،لیکن احمد کو یہ نہیں معلوم کہ گذشتہ سال اس نے مجموعی کاروبار کے پیسوں سے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے کتنے پیسے لیے تھے،اب درج ذیل   باتیں پوچھنی ہیں:

ایسا (یعنی نفع کا تناسب طےکیے بغیر اندازے سے نفع دینے کا)معاملہ کرنا کیسا ہے؟اور ایسا نفع محمود،عمر اور خالد کو دینا کیسا ہے؟اور احمد نے جو پیسے اپنے اور گھر والوں کے لیے لیے،اُس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں محمود ،عمر اور خالد کا احمد ( جو کہ تاجر ہے) کو اپنے کاروبار میں لگانے کے لیے پیسے دینا شرکت کا معاملہ کرنا تھا،اور شرکت میں دونوں فریقین کا نفع کا تناسب فیصد کے اعتبار سے طے کرنا ضروری  ہو تاہے، اور احمد(تاجر)نے چوں کہ تینوں(محمود،خالد اور عمر) میں سےہر ایک سے  نفع کی شرح اور تناسب متعین کیے بغیر  سرمایہ لیا ،اس لیے شرکت کا مذکورہ معاملہ تینوں میں سے ہر ایک سے فاسد ہوگیا،اور شرکتِ فاسدہ کا حکم یہ ہوتا ہے کہ اُس میں   نفع کی تقسیم ہر ایک کے سرمایہ کے حصص کے اعتبار سے ہوتی ہے،لہذا محمود ،احمد ،اور خالد کے سرمایہ میں جتنا نفع ہوا،وہ سارا کا سارانفع اصل سرمائے سمیت  اُن تینوں کو دینا احمد(تاجر )پر لازم ہے،رہی یہ بات کہ احمد (تاجر) کو یہ علم نہیں کہ اُس  نے اپنے اور گھر والوں کے لیے کتنی رقم لی تھی،تو اس کو اس کا حساب رکھنا چاہیے تھا، کیونکہ  اب یہ کاروبار اس کا نہیں ہے، بلکہ مشترکہ ہے، اب  احمد(تاجر) کو چاہیے کہ اس بات کی کوشش کرے کہ  ایک غالب اور محتاط اندازہ لگا  لے کہ اس نے کل اتنی رقم خرچہ کے لیے لگائی تھی ، پھر کل نفع کو ہر ایک کے درمیان بقدر سرمایہ تقسیم کرے اور اپنے حصے کے نفع میں سے وصول کردہ خرچہ کی رقم منہا کر کے باقی نفع لےکر  ،اور اگر اندازہ لگانے کی کوئی صورت نہ ہو تو احمد (تاجر)اور خالد،عمر اور محمود کو چاہیے کہ منافع  کی کسی مقدار پر مصالحت کرلے۔

البحرالرائق    میں ہے:

"قال : (ولاتصح إلا أن یکون الربح بینهما مشاعاً، فإن شرط لأحدهما دراهم مسماةً فسدت )؛ لما مر في الشرکة، وکذا کل شرط یوجب الجهالة في الربح یفسدها لاختلال المقصود".

(كتاب الشركة ،ما تبطل به شركة العنان،ج:5،ص:191،ط: دارالکتب العلمیة)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح".

(6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال ولا عبرة بشرط الفضل ) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله، كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما فالشركة فاسدة، والربح للمالك وللآخر أجر مثله، وكذلك السفينة والبيت، ولو لم يبع عليها البر فالربح لرب البر وللآخر أجر مثل الدابة."

(کتاب الشرکة، ‌‌فصل في الشركة الفاسدة، 4 / 326، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں