بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عقد نکاح میں انشاء اللہ کہنے کے ساتھ ایجاب و قبول کرنے کا حکم


سوال

کیا عقد نکاح میں" ان شاء اللہ "کہنے کے ساتھ ایجاب و قبول کرنے سے نکاح ہوجائے گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں عقد نکاح کے وقت "ان شاء اللہ" کہنے کے ساتھ ایجاب و قبول کرنے سے شرعا نکاح منعقدنہیں ہوگا، کیونکہ "ان شاء اللہ" سے مراد مشیئت خداوندی ہے اور مشیئت خداوندی کا علم اللہ رب العزت کے سوا کسی کو نہیں، لہذا نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

(عقد يفيد ملك المتعة) قال ابن عابدین: (قوله: عقد) العقد مجموع إيجاب أحد المتكلمين مع قبول الآخر أو كلام الواحد القائم مقامهما۔

(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب النکاح: ۳/ ۳، ط: سعید)

(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق۔ قال ابن عابدین: (قوله: لأن الماضي إلخ) قال في البحر: وإنما اختير لفظ الماضي؛ لأن واضع اللغة لم يضع للإنشاء لفظا خاصا، وإنما عرف الإنشاء بالشرع واختيار لفظ الماضي لدلالته على التحقيق والثبوت دون المستقبل. اهـ. وقوله: على التحقيق أي تحقيق وقوع الحدث۔

(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب النکاح: ۳/ ۹، ط: سعید)

(قوله فإنه تطليق إلخ) اعلم أن التعليق بمشيئة الله تعالى إبطال عندهما: أي رفع لحكم الإيجاب السابق وعند أبي يوسف تعليق، ولهذا شرط كونه متصلا كسائر الشروط. ولهما أنه لا طريق للوصول إلى معرفة مشيئته تعالى فكان إبطالا... ومثله في متن مواهب الرحمن حيث قال: ويجعل: أي أبو يوسف إن شاء الله للتعليق وهما للإبطال وبه يفتي۔

(رد المحتار علی الدر المختار، مطلب مهم لفظ إن شاء الله هل هو إبطال أو تعليق: 3/ 371، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100546

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں