میرا ایک دوست کہہ رہا ہے کہ میں سرمایہ لگاؤں اور وہ پنجاب سے جانور خرید کر بھیجے گا اور میں فروخت کروں گا اور نفع و نقصان آدھا آدھا ہو گا جبکہ اسکا کوئی سرمایہ نہیں لگ رہا، کیا ایسا کرنا جائز ہے۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ معاملہ شرعا درست نہیں ۔درست صورت یہ ہوسکتی ہےکہ دوست کے لیے اس کی محنت کا معاوضہ طے کرلیا جائے یا وہ بھی سرمایہ شامل کرے اورپھر دونوں نفع ونقصان میں شریک ہوں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال، ولا عبرة بشرط الفضل) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما، فالشركة فاسدة والربح للمالك وللآخر أجر مثله."
(كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة: 4/ 326، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411100816
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن