بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عقد بیع میں شرط فاسد لگانا


سوال

 ایک مکتبہ والوں نے ایک اصول اپنایا ہے کہ؛ مثلا اگر بخاری کا آرڈر دیا ہو ،تو اس آرڈر کے پورا ہونے کے لیے وہ یہ شرط رکھتے ہیں کہ؛ آپ ہم سے ہمارے ہی مکتبہ کی ایک خارجی کتاب لازمی خریدو، اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو ہم آپ کو بخاری بھی نہیں بیچیں گے، کیا اس طرح سے کسی بھی مکتبہ کے لیے اصول بنالینا درست ہے؟ شرعاً اس کی کہاں تک اجازت ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ایسی شرط لگانا جس کا نہ عقد تقاضا  کرتا ہو ، اور نہ ہی وہ شرط اس معاملہ کے مناسبات میں سے ہو،  اور اس شرط کی وجہ سے بیچنے والے یا خریدنے والے کا کوئی فائدہ ہو، یا مبیع کا فائدہ ہو،تو ایسی شرط خرید و فروخت کے معاملہ کو فاسد کردیتی ہے، شرعاً ایسے معاملہ کو ختم  کر کے نئے سرے سے معاملہ کرنا لازم ہوتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مکتبہ والوں کا بخاری شریف کی کتاب کی بیع میں یہ شرط لگانا کہ بخاری کے ساتھ کوئی اور خارجی کتاب بھی خریدنی ہوگی، یہ شرط عقدِ بیع کے خلاف ہے،اورشرطِ فاسد ہے،اور  یہ شرط بائع یعنی مکتبہ والوں نے اپنے فائدہ کے لیے لگائی ہے،لہذا اس سے مذکورہ بیع فاسد ہو گی،اور شرعاً ایسے بیع کو ختم کرنا لازم  ہے۔

الہدایہ میں ہے:

"‌وكل ‌شرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:3 ص:48 ط: دار الإحیاءالتراث العربي)

مجمع الانہر میں ہے:

"(ولو) كان البيع (بشرط لا يقتضيه العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين) أي ‌البائع ‌والمشتري (‌أو ‌لمبيع يستحق) النفع بأن يكون آدميا (فهو) أي هذا البيع (فاسد)."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، بيع الملامسة والمنابذة وإلقاء الحجر، ج:2 ص:63 ط: دار الإحیاءالتراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں