1۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک لڑکے نے ایک لڑکی سے فون پر نکاح کیا، جس کی صورت اس طرح تھی کہ لڑکا اور اس کے تین دوست مسجد میں بیٹھے، تین دوستوں میں سے ایک نکاح پڑھانے والا بنا، اور دو لڑکے کی طرف سے گواہ بنے، لڑکی دوسرے علاقے میں تھی ، پھر اس کو فون کیا، اور فون کر کے نکاح خواں نے اس لڑکی سے فون پر اجازت لی کہ: " کیا میں آپ کا نکاح فلاں بن فلاں سے کر دوں؟ کیا آپ مجھے اجازت دیتی ہو؟"، تو اس پر لڑکی نے کہا کہ : "جی میں اجازت دیتی ہوں "، اس طرح تین مرتبہ لڑکی سے اجازت لی ، پھر نکاح خواں نے نکاح کا خطبہ پڑھا، جو لڑکی نے بھی فون پر سنا ، خطبہ پڑھنے کے بعد نکاح خواں نے دوبارہ لڑکی سے پوچھا کہ: " میں آپ (یعنی فلانہ بنت فلاں) کا نکاح فلاں بن فلاں سے کرتا ہوں آپ کو یہ نکاح قبول ہے" تو لڑکی نے فون پر کہا کہ قبول ہے، اس طرح تین مرتبہ لڑکی سے قبول بھی کرایا، لڑکی کی یہ اجازت اور ایجاب وقبول صرف نکاح خواں نے فون پر سنا، دو گواہوں(جو نکاح خواں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے) نے اور لڑکے نے نہیں سنا، کیوں کہ موبائل کا اسپیکر بند تھا، پھر لڑکے سے تین مرتبہ قبول لیا، یہ کہہ کر کہ : " میں (فلانہ بنت فلاں) کو آپ کے نکاح میں دیتا ہوں ، آپ نے قبول کیا" ، اس پر لڑکے نے کہا کہ : " جی میں نے قبول کیا " اور درمیان میں کوئی مہر طے کرنا، اور اس کا ذکر کرنا بھول گئے،اور رخصتی کے بعد لڑکا لڑکی میں بھی کوئی آپس میں مہر مقرر نہیں ہوا، تو آیا یہ نکاح منعقد ہو گیا یا نہیں؟
2۔ اس نکاح کے بعد دونوں نے میاں بیوی والے تعلقات بھی قائم کیے ، پھر ایک ڈیڑھ مہینے کے بعد لڑکے نے لڑکی کی کسی بڑی غلطی کی وجہ سے اس کو وائس میسج پر الگ، اورٹیکسٹ میسج پر الگ ایک ساتھ ، اور ایک ہی نشست میں تین طلاقیں دے دیں، اور یہ الفاظ کہے کہ: " میں فلاں بن فلاں فلانہ بنت فلاں کو اپنے حوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں "، یہ الفاظ تین مرتبہ دہرائے، لڑکی نے نہ وہ وائس سنی، اور نہ ہی وہ میسج دیکھا،اور اس نے فون بند کر دیا، لڑکے نے سمجھا کہ لڑکی نے دیکھ لیا ہے، تو لڑکے نے سارے میسج ڈیلیٹ کر دیے، تو آیا یہ طلاق واقع ہو گئی؟اور اس طلاق کا کیا حکم ہے؟ کیااس سے رجوع کی کوئی گنجائش ہے؟اور عدت کا کیا حکم ہے کہ لڑکی عدت کرے گی یا نہیں؟
3۔ اور مہر کا کیا حکم ہے ؟کیوں کہ لڑکے نے اپنے دل میں 50 ہزار سوچے تھے ، اور نکاح خواں کو بھی بتا دیا تھا کہ 50 ہزار کہہ دینا ، جوکہ نکاح خواں اس وقت ذکر کرنا بھول گیا۔
واضح رہے کہ عقدِ نکاح میں مرد اور عورت کے ایجاب وقبول کے معتبر ہونے کے لیے مجلس کا ایک ہونا ، اور گواہوں کا اسی مجلس میں موجود ہونا ضروری ہے، اگر لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی ایک مجلس عقد میں نہ ہو تو نکاح کے انعقاد کے لیے کسی کو اپنا وکیل مقرر کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اس کی طرف سے مجلسِ نکاح میں ایجاب وقبول کرے ، ورنہ نکاح منعقد نہیں ہوتا، نیز وکیل بنانے کے لئے گواہوں کا ہونا ضروری نہیں۔
1۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں نکاح خواں نے فون پر نکاح کی اجازت لی اور لڑکی نے اس کو نکاح کرانے کی اجازت دے دی تو وہ نکاح خواں لڑکی کی طرف سے وکیل بن گیا، اور دو گواہوں کی موجودگی میں اس کا کرایا ہو کا نکاح صحیح اور منعقد ہوگیا تھا ، اور نکاح کے بعد دونوں کے لیے میاں بیوی والے تعلقات بھی صحیح اور جائز تھے ۔
2۔ پھر نکاح کے ایک ڈیڑھ مہینے کے بعد جب شوہر نے لڑکی کو وائس میسج پر الگ، اورٹیکسٹ میسج پر الگ، تین مرتبہ ایک ہی نشست میں یہ الفاظ کہے کہ :" میں فلان بن فلان ، فلانہ بنت فلان کو اپنے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں " تو اس سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں ، نکاح ختم ہوگیا ، اور بیوی شوہر پر حرمت مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوگئی،اب رجوع یا دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں،اور عورت پر عدت گزارنا لازم ہے، عدت(تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو ، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) مکمل کرنے پر عورت دوسری جگہ نکاح کےلیے آزاد ہوگی، باقی عورت کا وائس میسج سننا،یا ٹیکسٹ میسج دیکھنا ضروری نہیں ۔
3۔ نکاح کرتے وقت حق مہر متعین نہ ہونے کی صورت میں مرد پر لازم ہے کہ وہ اب لڑکی کو مہر مثل (یعنی اس لڑکی کے رشتہ داروں یعنی اس کی بہنوں ، یا بہنیں نہ ہونے کی صورت میں باپ کی بہنوں کے مہر کا جو معیار ہے اتنا مہر ) ادا کرے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"يصح التوكيل بالنكاح، وإن لم يحضره الشهود، كذا في التتارخانية ناقلا عن خواهر زاده."
(الفتاوى العالمكيرية، كتاب النكاح، الباب السادس في الوكالة بالنكاح وغيرها، 1/ 294، ط: دار الفكر)
وفیہ ایضا:
"ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولا ينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل."
(الفتاوى العالمكيرية، كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، 1/ 267، ط: دار الفكر)
قرآن مجید میں ہے:
"الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ."(البقرة: 229)
ترجمہ:" وہ طلاق دو مرتبہ ( کی ) ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑ دینا خوش عنوانی کے ساتھ ۔" (بیان القرآن)
"فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ."(البقرة: 230)
ترجمہ:" پھر اگر کوئی ( تیسری ) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ ( عدت کے بعد ) نکاح کرلے ۔" (بیان القرآن)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية".
(كتاب الطلاق، باب في الرجعة، ج1، ص506، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة ...
(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة".
(كتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة، ج3، ص246، ط: دار الفكر)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"هي انتظار مدة معلومة يلزم المرأة بعد زوال النكاح حقيقة أو شبهة المتأكد بالدخول أو الموت كذا في شرح النقاية للبرجندي."
(الفتاوى العالمكيرية، كتاب الطلاق، باب العدة، 1/ 526، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ثم إن علم أن اعتبار مهر المثل المذكور حكم كل نكاح صحيح لا تسمية فيه أصلا أو سمى فيه ما هو مجهول، أو ما لا يحل شرعا، وحكم كل نكاح فاسد بعد الوطء سمي فيه مهر أو لا."
(حاشية ابن عابدين، كتاب النكاح، باب: المهر المثل، 3/ 137، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101572
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن