بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عقد مضاربت ميں نقصان دونوں پر ڈالنے کا حکم


سوال

میرا دوست پرانے رکشے لے کر بیچتا ہے ،میں اس کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا ہوں ،اس کا کہنا ہے کہ پیسہ تمہارا محنت میری ہوگی ،اور نفع برابر تقسیم ہو گا اور اگر نقصان ہوگا تو بھی برابر تقسیم ہو گا۔ مثال کےطورپر اگر وہ ایک لاکھ مجھ سے لے کر رکشہ خریدتا ہے اور اس کو ڈیڑھ لاکھ میں بیچتا ہے۔تو دونوں کو پچیس پچیس ہزار ملیں گے۔اور اگر وہ نقصان میں80000 اسی ہزار میں بیچتا ہے تو جو بیس ہزار کا نقصان ہوا اس میں سے دس ہزار وہ ادا کرے گا ۔ کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عقد عقدِ مضاربت ہے، اور عقد مضاربت میں نقصان مضارب پر ڈالنا جائز نہیں  ،بلکہ پہلے نفع سے نقصان کو پورا کیا جائے گا اور اگر نفع سے پورا نہ ہو تو یہ نقصان صرف رب المال (جس کا سرمایہ ہے) پر ہے، مضارب پر نقصان کی شرط  ڈالنا شرط فاسد ہے،اس کااعتبار نہیں ۔

لہذاصورت مسؤلہ میں اگر وہ مذکورہ  رکشہ نقصان میں80000 اسی ہزار میں بیچتا ہے تو جو بیس ہزار کا نقصان ہو گا  وہ سارانقصان   صرف رب المال (جس کا سرمایہ ہے)   برداشت کرے گا،مضارب( کام کرنے والے ) کےذمہ کچھ نہیں ہو گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو شرطا في العقد أن تكون الوضيعة عليهما بطل الشرط، والمضاربة صحيحة والأصل في الشرط الفاسد إذا دخل في هذا العقد أنه ينظر إن كان يؤدي إلى جهالة الربح يوجب فساد العقد؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالة المعقود عليه توجب فساد العقد، وإن كان لا يؤدي إلى جهالة الربح يبطل الشرط وتصح المضاربة وشرط الوضيعة عليهما شرط فاسد؛ لأن الوضيعة جزء هالك من المال، فلا يكون إلا على رب المال، لا أنه يؤدي إلى جهالة الربح، فلا يؤثر في العقد فلا يفسد به العقد۔"

(کتاب المضاربة، ص:86، ج:6، ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں