ایپل کمپنی کی طرف سے ڈیلر شپ دی جاتی ہے جس کے اصول مندرجہ ذیل ہیں:
1. پہلے سے دو کروڑ کے لگ بھگ مال آپ ان سے لے رہے ہوں۔
2. ایک کروڑ مزید ایڈوانس جمع کرانے پڑیں گے۔
اس پر ان کی طرف سے مندرجہ ذیل منافع ملتے ہیں:
1. ایپل کمپنی کا کوئی بھی پروڈکٹ خریدوگے تو 25 فی صد کم پر وہ چیز آپ کو ملے گی۔
2. اس ڈیلر شپ کی وجہ سے ایپل کمپنی 30 سے 35 لاکھ کا مال ادھار پر دیتی ہے جسے آپ بیچ کر اصل پیسہ ایپل والوں کو واپس دیں گے اور نفع خود رکھوگے۔
3. سال میں ایک بار بطور گفٹ کے 10 لاکھ انعام دیتے ہیں اور شروع میں ڈیلر شپ لینے پر بطور انعام کے 3 موبائل بھی دیتے ہیں۔
آیا یہ تین قسم کے منافع ڈیلر شپ کی مد میں ایپل کمپنی سے حاصل کرنا جائز ہے؟
دلائل کے ساتھ فقہ حنفی کی روشنی میں اگر جواب دیا جائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔
صورتِ مسئولہ میں ایپل کمپنی اپنے بنائے جانے والے ڈیلر سے ابتداءً جو ایک کروڑ روپے وُصول کرتی ہے اگر کمپنی اسی ایک کروڑ روپے کے عوض مذکورہ انعامات بطورِ منافع مشروط طور پر دیتی ہو تو یہ منافع سود میں داخل ہوں گے اور اس کا وصول کرنا ناجائز ہو گا اور اگر ایپل کمپنی یہ انعامات و منافع تبرعاً دیتی ہو، کمپنی پر یہ انعام دینا لازم نہ ہوتا ہو اور ڈیلر کو اس کے مطالبہ کا بھی کوئی حق نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں ڈیلر شپ لینا اور کمپنی سے انعامات وصول کرنا جائز ہو گا۔
النتف فی الفتاویٰ میں ہے:
"أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون. الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلک (هذا) القرض لما کان (ذلک) الفعل، فإن ذلک رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه.‘‘
(کتاب الولاء، الربا فی القروض، ص: 484، بيروت لبنان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100033
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن