نیٹ پر ایک ایپ ہے جس پر آن لائن کام کرنا ہوتا ہے، کام ایسے کیا جاتا ہے کہ پہلے 4000 روپے ایزی پیسہ/جاز کیش کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں ،جس کے بعد روزانہ کے چار عدد ٹاسک دیے جاتے، جس میں کھانا بنانے کی ویڈیو ہوتی ہے اس کو پلے(چلا کر) کر کےلائک کرنا ہوتا ہے، جس کے 40 روپے ملتے ہیں اور روزانہ کے 160 روپے بنتے ہیں اور 7 دن کے بعد وہ روپے ایزی پیسہ/ جاز کیش کے ذریعے واپس لے سکتے ہیں، ابتدا میں 4000 روپے دیے جاتے وہ 12 مہینے تک چلتے ہیں، چھ ماہ کام کرنے پر ایپ جمع شدہ چار ہزار واپس کر دیتی ہے اپنے ریفرنس کے ذریعے کسی کو اس ایپ پر لانے کے 400 روپے دیے جاتے ہیں جب وہ اپنے 4000 روپے جمع کرواتا ہے، اسکے بارے میں پتہ کرنا ہے کہ یہ جائز ہےیانہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ ایپ سے کمانے میں درج ذیل شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں ،جس کی وجہ سے مذکورہ ایپ سے پیسے کمانا ناجائز ہے :
1۔ایپ کا ٹاسک(کام) مکمل کرنے پر پیسے ملنا اجارے کے حکم میں ہے لیکن اس کے لیے ابتدائی 4000 روپے جمع کرانے کی شرط لگانا شرط فاسد ہے اور ناجائز ہے۔
2۔ابتداء 4000 روپے جو بعد میں واپس دیے جاتے ہیں ،قرض کے حکم میں ہیں، چناں چہ اس رقم پر ایپ سے اضافی منافع حاصل کرنا سود کے حکم میں ہے۔
3۔ عام طور پر اس نوع کی ایپ سے مقصود وڈیو ،ایپ،پروڈکٹ وغیرہ کی تشہیر ہوتی ہے ،تاکہ خریدار / ناظرین کے اعداد و شمار بڑھ جائیں اور دیگر لوگوں کو راغب کیا جائے حالاں کہ اس طرح کرنے والے حقیقی خریدار بھی نہیں ،کمپنی / ایپ والے پیسے دے کر جعلی تشہیر کرواتے ہیں جو کہ دھوکے پر مبنی ہے ۔
4۔ اس میں کلک کرنے والا ایک ہی شخص کئی بار کلک کرتا ہے، جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اشتہار دیکھنے والے بہت سے لوگ ہیں، جس سے اشتہار دینے والوں کی ریٹنگ بڑھتی ہے، حال آں کہ یہ بات بھی خلافِ واقعہ اور دھوکا دہی ہے۔
5۔ نیز ایڈ پر کلک ایسی چیز نہیں ہے جو منفعت مقصودہ ہو، اس لیے یہ اجارہ صحیح نہیں ہے۔
6۔ اگر ان اشتہارات میں جان دار کی تصاویر یا خواتین کے تصاویر بھی ہوں تو یہ اس پر مستزاد قباحت ہے۔
7۔ مذکورہ ایپ سے رقم حاصل کرنا چوں کہ شرعاً جائز نہیں ؛لہذا اس ایپ میں کسی کو انوائٹ کرکے اس کے عوض کمیشن لینا گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ ۔
لہذا اس طرح کی ویب سائٹ میں رجسٹرڈ ہونا یا اس سے پیسہ کمانا جائز نہیں ۔
مسند امام احمد میں ہے :
"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."
(،تتمة مسند الأنصار،حديث أبي أمامة الباهلي، ج: 36، صفحہ: 504، رقم الحدیث: 22170، ط: مؤسسة الرسالة)
شعب الإيمان میں ہے:
"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أي الكسب أطيب؟ قال: عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور."
(الثالث عشر من شعب الإيمان،ج4،ص434،رقم:1170،ط:مكتبة الرشد )
رد المحتار میں ہے:
"هي لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."
(كتاب الإجارة،ج6،ص4،ط:سعید)
الموسوعة الفقهية الكويتية ميں هے:
"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة."
(إجارة،الفصل السابع،الفرع الثالث،الإجارة على المعاصي والطاعات،ج1،ص290،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503100188
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن