بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے نیک اعمال کا ثواب تمام امت محمدیہ کے لیے بخشنے کا حکم


سوال

ایصال ثواب کے لیے اگر کوئی شخص رات کو سونے سے قبل اپنے دن بھر کے ذکر اذکار درود اور نوافل جن کی تعداد معلوم نہ ہو، یوں ایصال ثواب کرے کہ" اے اللہ آج فجر سے لے کر اس وقت تک میں نے جتنے بھی ذکر اذکار اور نوافل پڑھےہیں، ان سب کا ثواب فلاں، فلاں اور جمیع امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلم، مسلمات اور مومن، مومنات مرحومین کو پہنچا دیں"،  کیا یہ طریقہ صحیح ہے اور کیا اپنی تہجد کی نماز کابھی ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اپنے نیک اعمال(روزہ، نماز، صدقہ وغیرہ)، واذکار کا ثواب بلکہ کسی بھی نیک کام کا اجر اپنے والدین، رشتہ داروں اور دیگر متعلّقین اور تمام امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشنا نہ صرف جائز عمل ہے بلکہ ایک مرغوب ومستحسن عمل بھی ہے، جس کا مکمّل اجر وثواب نہ صرف امّتِ محمدیہ کے ہر فرد کو ملے گا بلکہ اس کا پورا پورا ثواب ایصالِ ثواب کرنے والے کو بھی ملےگا، لہذا سائل کا سوال میں ذکر کردہ طریقہ(یعنی رات کو سوتے وقت دن میں کئے ہوئے تمام نیک اعمال کا ثواب تمام امّتِ محمدیہ کے لیے بخشنا)  درست طریقہ ہے۔ اسی طرح اپنی تہجد کی نماز کا ثواب بھی بخشا  جاسکتا ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

" الأفضل لمن یتصدّق نفلًا أن ینوي لجمیع المؤمنین و المؤمنات؛ لأنّها تصل إلیهم، ولاینقص من أجره شيءٍ اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة".

( کتاب الصلاة، باب الجنائز، مطلب في القراءة للمیت وإهداء ثوابها له،ج:2، ص:243،  ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے

"قلت :لکن سئل ابن حجر المکي عما لو قرأ لأهل المقبرة الفاتحة: هل یقسم الثواب بینهم أو یصل لکل منهم مثل ثواب ذلك کاملًا؟ فأجاب بأنه أفتی جمع بالثاني، وهو اللائق بسعة الفضل".

(کتاب الصلوۃ،  باب صلاة الجنازة، مطلب في القراءة للمیت و إهداء ثوابها له، ج:2، ص:244، ط:ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات أو الأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة وقد صح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «أنه ضحى بكبشين أملحين: أحدهما: عن نفسه، والآخر: عن أمته ممن آمن بوحدانية الله تعالى وبرسالته» صلى الله عليه وسلم وروي «أن سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله: إن أمي كانت تحب الصدقة أفأتصدق عنها؟ فقال النبي: صلى الله عليه وسلم تصدق» وعليه عمل المسلمين من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا من زيارة القبور وقراءة القرآن عليها والتكفين والصدقات والصوم والصلاة وجعل ثوابها للأموات، ولا امتناع في العقل أيضا لأن إعطاء الثواب من الله تعالى إفضال منه لا استحقاق عليه، فله أن يتفضل على من عمل لأجله بجعل الثواب له كما له أن يتفضل بإعطاء الثواب من غير عمل رأسًا\".

(کتاب الحج، فصل:نبات الحرم، ج:2، ص:212، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں