بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جُمادى الأولى 1446ھ 14 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی ادائیگی کے لیے کسی کو وکیل بنانے کا حکم/ اپنے ملازم کو زکوۃ دینے کا حکم


سوال

1:  میں جو زکوٰۃ دیتی ہوں ان لوگوں کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتی،  بلکہ کسی کہ توسط  سے دیتی ہوں، کیا یہ صحیح ہے؟

2:  صدقہ یا خیرات گھر کے ملازمین یا محلے کے چوکیداروں کو دیا جا سکتا ہے؟

جواب

1:کسی دوسرے شخص کو اپنی زکوۃ کی رقم دے کر وکیل اور مختار بنانا جائز ہے، تاکہ وہ موکل کی طرف سے زکوۃ کی رقم صحیح مصرف میں خرچ کرے، البتہ وکیل ایسے آدمی کو بنایا جائے جس پر پورا اعتماد ہو کہ وہ زکوۃ کی رقم کو صرف زکوۃ کے مستحق  (یعنی  مسلمان، غیرسید، ایسا غریب جو صاحب نصاب نہ ہو)  پر ہی صرف کرے گا ، کسی اور  مد میں خرچ نہ کرے گا، تو  ایسے کرنے سے زکات ادا ہو جائے گی۔

2: اپنے ملازمین بھی اگر مستحقِ زکوۃ  ہیں (یعنی وہ مسلمان، غیرسید ہیں اور صاحبِ  نصاب نہیں ہیں) تو ان کو زکوۃ  دینا جائز ہے، البتہ ضروری ہے کہ زکوۃ کی رقم تنخواہ میں نہ دی جائے۔

واضح رہے کہ یہاں صاحبِ نصاب سے مراد وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں ضرورت و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے سات تولہ سونے یا ساڑھے باون تولہ چاندی میں سے کسی ایک کی مالیت تک پہنچ جائے؛ لہٰذا ایسا شخص جو اتنے مال یا سامان کا مالک ہو وہ زکوٰۃ وصول نہیں کرسکتا۔

فتاوی عالمگیری  (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل ونوى عند دفع الوكيل جاز كذا في الجوهرة النيرة وتعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل كذا في معراج الدراية فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أن يدفع إلى الفقراء فدفع، ولم ينو عند الدفع جاز."

(كتاب الزكوة، الباب الاول فى تفسير الزكوة، ج:1، ص:171، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209200638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں