میرے والد کا انتقال ہوا، ان کے ترکہ میں افغانستان میں کچھ زمین تھی، والد کے انتقال کے بعد ان کی زمین کو تقسیم کر رہے تھے، ہماری چار بہنیں ہیں، ان کا شرعی حصہ چار جرب بنتا ہے، ہم نے دونوں زندہ بہنوں اور دو فوت شدہ بہنوں کے وارثوں سے کہا کہ آپ لوگوں کا حصہ چار جریب بنتا ہے ، آپ لوگ تین جریب لے لو، اس بات پر دونوں بہنوں اور دونوں فوت شدہ بہنوں کے ورثاء نے ایک جریب چھوڑنے پر رضامندی کا اظہار کیا، انھوں نےتین جریب بخوشی لے لیا، اور ایک جریب چھوڑ دیا، اس پر ہمارے پاس گواہ بھی موجود ہیں، اس فیصلے کے دو سال بعد تک دونوں بہنیں اور فوت شدہ بہنوں کے لواحقین اپنے اپنے حصے کا غلہ اناج بھی لیتے رہے، اب دو سال بعد فوت شدہ بہنوں کے لواحقین سابقہ فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں، اور چھوڑے ہوئے جریب کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور زندہ بہنیں اپنے سابقہ فیصلے پر راضی ہیں، ایسی صورت میں فوت شدہ بہنوں کے لواحقین کا سابقہ فیصلے سے انکار کرنا،اور آدھے جریب کا مطالبہ کرنا شرعا کیسا ہے؟
نیز فوت شدہ بہنوں کے جو لواحقین ہیں، ان میں سے صرف دو افغانستان میں ہیں، اور یہی دو ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں، اگر ہم ان کو ان کے حصے کا جریب دے دیتے ہیں، تو ان کے بقیہ ورثاء سے اجازت لینا ضروری ہے یا نہیں؟ اگر ان میں سے بھی کوئی معاف کر دے تو اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہےکہ کسی وارث کا ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو) دوسرے ورثاء سے اپنے حصے پر صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، اسے اصطلاح میں " تخارج" کہتے ہیں، لہذا ایسی صورت میں اپنے حصے سے دستبردار ہونے والے وارث کو بعد میں شرعا مزید مطالبے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعتا درست ہے کہ ، انھوں نے بہنوں کو ان کے حصے سےایک جریب کم حصہ دیا تھا، اور اس وقت بہنوں نے اور مرحوم بہنوں کے ورثاء نے خوشی سے بغیر کسی کے دباؤ مذکورہ حصہ لے کر ایک جریب سے دستبرداری پر رضامندی کا اظہار کیا تھا، اور زندہ بہنوں اور فوت شدہ بہنوں کے ورثاء نےاپنے حصے سے کم پر رضامندی کا اظہار کر کے وہ اپنے حصے سے دست بردار ہو گئے تھے جس کے بعد وہ اپنے اپنے حصوں پر کاشت کاری کرتے رہے تو اب اس معاہدہ کی رو سے بہنوں کو اور فوت شدہ بہنوں کے ورثاء کو مزید حصہ نہیں ملے گا، تاہم اگر بھائی اپنی خوشی سے دل جوئی کے لیے مزید کچھ دے دیں تو یہ احسان کا معاملہ ہوگا۔
اسی طرح جب فوت شدہ بہنوں کے لواحقین نے اپنے حصے سے کم پر رضامندی ظاہر کر دی تھی، تو اب ان کو جریب دینا، ان کے ساتھ تبرع و احسان ہے، جس کے لیے دوسرے ورثاء کی اجازت ضروری نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ولو أخرجوا واحدا) من الورثة (فحصته تقسم بين الباقي على السواء إن كان ما أعطوه من مالهم غير الميراث، وإن كان) المعطى (مما ورثوه فعلى قدر ميراثهم) يقسم بينهم."
(كتاب الصلح، فصل في التخارج، ج:5، ص:644، ط: سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهما منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا وإن كانت التركة ذهبا فأعطوه فضة أو كانت فضة فأعطوه ذهبا فهو كذلك لأنه بيع الجنس بخلاف الجنس فلا يشترط التساوي ويعتبر التقابض في المجلس."
(كتاب الصلح، الباب الخامس عشر في صلح الورثة والوصي في الميراث والوصية، ج:4، ص:268، ط: دار الفكر بيروت)
شریفیہ شرح سراجیہ میں ہے :
"فصل في التخارج و هو تفاعل من الخروج و المراد به ههنا أن يتصالح الورثة على اخراج بعضهم عن الميراث بشيئ معلوم من التركة ، و هو جائز عند التراضي."
( باب التصحیح، فصل في التخارج ص:73،ط:قدیمی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602102740
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن