بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی بہو کو غلط نگاہ سے دیکھنا


سوال

میرے والد میری بیگم کو غلط نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے قریب آنے کو کہتے ہیں، ایسی صورتِ حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد کا اپنی بہو کو غلط نظر سے دیکھنا اور اپنے قریب آنے کا کہنا شرعا ناجائز اورحرام  ہے؛کیوں مذکورہ اعمال کا ارتکاب کرنا گناہ  اور معصیت ہے، اگر والد نے سائل کی بیوی کو شہوت کے ساتھ بلاحائل چھولیا تو اس سے سائل کی بیوی سائل پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی، لہذا سائل کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کی عزت وناموس کی ہر ممکن حفاظت کی کوشش کرے کہ  کہیں ایسا نہ ہو کہ والد کو کسی قسم کی دست درازی کا موقع ملے اور بیوی کو بھی اچھی طرح مسئلہ کی نزاکت سے آگاہ کرے اور احتیاط کرنے کو کہے،اگر ساتھ رہتے ہوئے بچناممکن نہ ہو تو  بیوی کےلئے علیحدہ گھر کا بندوبست کرے۔

البحر الرائق میں ہے:

"قال: - رحمه الله - (ويمس ما يحل له النظر إليه) يعني يجوز أن يمس ما حل له النظر إليه من محارمه ومن الرجل لا من الأجنبية لتحقق الحاجة إلى ذلك من المسافرة والمخالطة وكان - عليه الصلاة والسلام - «يقبل رأس فاطمة ويقول أجد منها ريح الجنة وقال من قبل رأس أمه فكأنما قبل عتبة الجنة ولا بأس بالخلوة معها» لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا يخلون رجل بامرأة ليس منها سبيل فإن ثالثهما الشيطان» والمراد إذا لم تكن محرما؛ لأن المحرم بسبيل منها إلا إذا خاف على نفسه أو عليها الشهوة فحينئذ لا يمسها ولا ينظر إليها ولا يخلو بها لقوله - عليه الصلاة والسلام - «‌العينان يزنيان وزناهما النظر واليدان يزنيان وزناهما البطش والرجلان يزنيان وزناهما المشي والفرج يصدق ذلك أو يكذبه» فكان في كل واحد منها زنا والزنا محرم بجميع أنواعه وحرمة الزنا بالمحارم أشد، وأغلظ فيجتنب الكل."

[كتاب الكراهية، فصل في النظر واللمس، ج:8، ص:221، ط:دار الكتاب الإسلامي]

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (قوله: وأصل ممسوسته إلخ) ؛ لأن المس والنظر سبب داع إلى الوطء فيقام مقامه في موضع الاحتياط هداية. واستدل لذلك في الفتح بالأحاديث والآثار عن الصحابة والتابعين. (قوله: بشهوة) أي ولو من أحدهما كما سيأتي...فما في الذخيرة من أن الإمام ظهير الدين أنه يفتى بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس، وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت رقيقة تصل الحرارة معها بحر."

[كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3،ص:33، ط:سعيد]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں