بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی ضرورت کے استعمال کے لیے زمین پر زکوۃ کا حکم


سوال

 اگر کسی کے پاس ایگ گھر ہو جو بہت پرانا ہے، اس کو دوبارہ بنانے کی ضرورت ہے، اور ایک زمین اس کو ملی ہے تاکہ اس زمین کو بیچ کر اپنا پرانا گھر بنالے، تو جب تک گھر نہیں بنالیتا ہے، کیا اس زمین کی زکوۃ دینی ہوگی؟ پرانے گھر میں خود رہ رہی ہے اور ایک زمین ہے، کیا زمین پر زکوۃ ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ جائیداد زمین، پلاٹ وغیرہ اگر تجارت کے لیے خریدے ہوں، توسال مکمل ہونے کے بعد ان کی زکوۃ دینا لازم ہوتاہے، لیکن اگر تجارت کے لیے نہ  لیے ہوں، تو   ان پر زکوۃ نہیں ہوتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ زمین    تجارت کے لیے نہیں خریدی، اس لیے اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 172، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"والأصل أن ‌ما ‌عدا ‌الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة.

(قوله ‌ما ‌عدا ‌الحجرين)... وما عدا ما ذكر كالجواهر والعقارات والمواشي العلوفة والعبيد والثياب والأمتعة ونحو ذلك من العروض."

(‌‌كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 273، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"‌زكاة ‌التجارة ‌تجب ‌في ‌الأرض." 

(‌‌كتاب الزكاة، ‌‌باب السائمة، ج: 2، ص: 275، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں