بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی زمین پر جانور چرانے کی بالعوض اجازت دینا


سوال

ہمارا گاؤں ضلع بونیر میں واقع ہے، ہمارےہاں پہاڑوں کی تقسیم قوموں کے حساب سےہوچکی ہے،مثلًا پہاڑ الف فلاں  قبیلے کا پہاڑ،  ب عزیز خیل کا پہاڑ،  ج کرہ خیل کا وغیرہ وغیرہ۔

اب ہمارےعلاقےمیں سوات گبرال  کےگجر لوگ آتے ہیں،  یہاں کسی قبیلے کو مخصوص رقم دیتےہیں اور پھر پورا سال اس میں بکریاں چراتےہیں،  ہماری زبان میں ان کو  "قلنگ"  کہا جاتاہے۔

یاد رہے کہ جس گھاس میں بکریاں چراتےہیں وہ خودرو ہوتی ہیں،  مالک کا کوئی عمل دخل اس  کے اگانےمیں نہیں ہوتاہے۔

سوال یہ ہے کہ اس طرح کی کمائی کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چرواہوں کو اپنے قبیلے  پہاڑ پر جانور چرانے دینے کے عوض رقم وصول کرنا شرعًا جائز نہیں، کیوں کہ خرید و فروخت میں مبیع کا متعین ہونا شرعًا ضروری ہوتا ہے، مسئولہ صورت میں  مبیع مجہول ہے،  پس ایسی کمائی جائز نہیں، البتہ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ چرواہوں کو  چراہ گاہ کی زمین پر   جانور  باندھنے کے لیے زمین متعین کرایہ پر ایک متعین مدت تک کے لیے  دے دی جائے،  چارہ  چرنے پر کوئی اجرت وصول نہ کی جائے۔ 

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"14500 - عبد الرزاق قال: أخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه قال: سأله رجل فقال: إن في أرضي شجرا، أفأبيعه؟ قال: «لا، ولكن احمه لدوابك»

14501 - عبد الرزاق قال: أخبرني معمر قال: أخبرني من، سمع عكرمة يقول: «لا تأكل ثمن الشجرة فإنه سحت»، يعني الكلأ

14502 - عبد الرزاق قال: أخبرنا إبراهيم بن عمر، عن عبد الكريم أبي أمية، عن الحسن أنه كان يكره بيع الكلإ كله، مرجا كان أو سهلا، أو جبلا"."

( كتاب البيوع، باب: بيع الشجر، 8 / 107، ط: المجلس العلمي- الهند )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

فلا ينعقد بيع الكلإ ولو في أرض مملوكة له

( كتاب البيوع ، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، 3 / 3، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضا:

"و لايجوز بيع الكلأ وإجارته وإن كان في أرض مملوكة غير أن لصاحب الأرض أن يمنع الدخول في أرضه وإذا امتنع فلغيره أن يقول إن لي في أرضك حقا فإما أن توصلني إليه أو تحشه وتدفعه لي، هذا إذا نبت بنفسه فأما إذا كان سقى الأرض وأعدها للإنبات فنبت ففي الذخيرة والمحيط والنوازل يجوز بيعه لأنه ملكه وهو مختار الصدر الشهيد ومنه لو خندق حول أرضه وهيأها للإنبات حتى نبت القصب صار ملكا له وعليه الأكثر هكذا في البحر الرائق ولو احتشه إنسان بلا إذنه كان له الاسترداد وهو المختار كذا في جواهر الأخلاطي والحيلة في جواز إجارته أن يستأجر الأرض لإيقاف الدواب فيها أو لمنفعة أخرى بقدر ما يريد صاحبه من الثمن أو الأجرة فيحصل به غرضهما كذا في البحر الرائق ويدخل في الكلإ جميع أنواع ما ترعاه الدواب رطبا كان أو يابسا بخلاف الأشجار لأن الكلأ ما لا ساق له والأشجار لها ساق فلا تدخل فيه حتى جاز بيعها إذا نبتت في أرضه والكمأة كالكلإ، كذا في التبيين."

( كتاب البيوع الباب، الباب التاسع فيما يجوز بيعه وما لا يجوز، الفصل الثالث في بيع المرهون والمستأجر والمغصوب والآبق وأرض القطيعة، 3 / 109 - 110، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں