کیا زکوٰۃ کی رقم ادا کرنے والا خود اپنی اسی زکوٰۃ والی رقم سے اپنا قرضہ ادا کر سکتا ہے؟
زکات کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ زکات کی رقم کسی مستحقِ زکات شخص کو کسی عوض کے بغیر بطورِ تملیک (مالک بناکر) دے دی جائے، لہٰذا زکات ادا کرنے والا شخص خود پر واجب الادا قرضہ کے بدلہ رقم دے تو زکات ادا نہیں ہوگی، قرضہ تو ادا ہوجائے گا، لیکن زکات ذمے میں باقی رہے گی۔
ملحوظ رہے کہ قرض کی واجب الادا رقم کو کل ملکیت سے منہا کرکے بقیہ مالیت پر زکات واجب ہوگی۔ لہٰذا اگر اس شخص پر اتنا قرض ہو کہ اسے منہا کرنے کے بعد اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا مال (سونا، چاندی، نقدی یا مالِ تجارت) بچے جو نصاب تک پہنچے تو اس پر زکات واجب ہوگی، بصورتِ دیگر اس پر زکات واجب نہیں ہوگی۔
الفتاوى الهندية (1/ 170)
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع، كذا في التبيين."
الفتاوى الهندية (1/ 190):
"ولو نوى الزكاة بما يدفع المعلم إلى الخليفة، ولم يستأجره إن كان الخليفة بحال لو لم يدفعه يعلم الصبيان أيضا أجزأه، وإلا فلا".
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144111201829
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن