بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی سگی خالہ کے ساتھ زناکرنے سے حرمت مصاہرت کا حکم


سوال

اگر بھانجے نے اپنی سگی خالہ سے زنا کیا مطلب اپنی والدہ کی بہن کے ساتھ زنا کیا اور بھانجے نے خالہ کی بھتیجی سے نکاح کیا ہواہے،تو کیا  بھانجے کا اپنی بیوی سےنکاح ٹوٹ جائےگا؟ اور کیا خالہ کا اپنے شوہر سے نکاح ٹوٹ جائے گا ؟ 

جواب

واضح رہے کہ  زنا کرنا   بہت بڑا گناہ ہے،اوراپنے محارم سے زنا کرنا اور بھی قبیح ہے قرآن و حدیث میں زنا کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اور زنا کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدیں نازل ہوئی ہیں۔

حدیثِ مبارک میں ہے:

" عن عبد الله بن بريدة عن أبيه رضي الله عنه : إن السماوات السبع والأرضين السبع والجبال ليلعن الشيخ الزاني وإن فروج الزناه لتؤذي أهل النار بنتن ريحها".

(مسند بزار،ج:10،ص:310،ط:بیروت)

’’ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی جس سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں ہوتی رہے گی۔‘‘

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں مذکورہ بھانجے کا اپنی خالہ سے زنا کرنا انتہائی قبیح اور مذموم فعل ہے، دونوں پنے اس فعل پر ندامت کے ساتھ کثرت سے توبہ و استغفار کریں اور اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑائیں اور آئندہ اس برے عمل سے اجتناب کریں ، اور حتی الامکان ایک دوسرے کے سامنے نہ آئیں، تنہائی میں تو ہرگز نہ ملیں،  تاہم بھانجے کا اپنی سگی خالہ کے ساتھ زنا کرنےکرنے سے بھانجے کا نکاح اپنی بیوی سے(جوکہ خالہ کی بھتیجی سے ہوا) اور اس کی سگی خالہ کا نکاح اپنے شوہر سے نہیں ٹوٹا، کیونکہ زنا سے جوحرمت ثابت ہوتی ہے، شرعی اصطلاح میں اسے حرمتِ مصاہرت کہا جا تاہے، اور اس حرمت کاتعلق صرف مرد وعورت کے اصول و فروع سے ہے، یعنی جو مرد  کسی عورت کے ساتھ زنا کرے  تو اس مرد پر عورت کے اصول (یعنی   اس عورت کی ماں، دادی، نانی، پردادی، پرنانی آخر تک) اورفروع (یعنی اس عورت کی بیٹی، پوتی، پرپوتی، نواسی، پرنواسی آخر تک) ہمیشہ کے لیےحرام  ہوجاتی ہیں، اور اس عورت پر اس مرد کے اصول ( یعنی پدری و مادری سلسلہ) اور فروع (یعنی  اس مرد کا بیٹا، پوتا، پرپوتا، نواسا، پرنواسا آخر تک) ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتےہیں، جب کہ صورتِ مسئولہ میں بھانجے کی بیوی اس کی سگی خالہ کے نہ اصول میں سے ہے اور نہ فروع میں ہے، اسی طرح خالہ کے شوہر بھانجے کے نہ اصول میں سے ہے اور نہ ہی فروع میں سے ہے،اس لیے سائل کے بھانجے کا نکاح اس کی بیوی سے نہیں ٹوٹا، اور  خالہ کانکاح اس کے شوہر سے نہیں ٹوٹا، دونوں کا نکاح حسبِ سابق برقرار ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: قرابة).....(قوله: مصاهرة) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات وتحرم موطوءات آبائه وأجداده، وإن علوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وموطوءات أبنائه وآباء أولاده، وإن سفلوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح فتح، وكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن، (قوله: رضاع)،....وهذه الثلاثة محرمة على التأبيد".

(فصل فی المحرمات،ج:3،ص:28،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں