اگر ایک عورت کی ایک مرد سے شادی ہو جائے، اور اس عورت سے بچے نہ ہوں۔ اور دونوں میں طلاق ہو جائے اور طلاق کے بعد وہ عورت دوسری شادی کرلے اور پھر اس کی بچی(لڑکی) ہو جائے، اب کیا اس عورت کا پہلے جو شوہر تھا جس سے طلاق لی ہے وہ اس لڑکی سے شادی کر سکتا ہے؟
جس عورت سے کوئی مرد شادی کر چکا ہو، اور شادی کے بعد اس سے ہم بستری بھی کرچکا ہو، اس مرد کے لیے اپنی اس بیوی کی لڑکی سے نکاح کرنا جائز نہیں، چاہے اس کی بیوی کی وہ لڑکی اس مرد کے علاوہ کسی اور شوہر سے ہی پیدا ہوئی ہو۔
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (2 / 3):
(ولا ببنت امرأته التي دخل بأمها سواء كانت في حجره أو حجر غيره) وكذلك بنت الربيبة وأولادها وإن سفلن؛ لأن جدتهن قد دخل بها فحرمن عليه كأولادها منه وصارت كأم زوجته فإنها تحرم عليه هي وأمهاتها وجداتها وإن علون وأمهات آبائها وإن علون ثم إذا لم يدخل بالأم حل له تزويج البنت في الفرقة والموت؛ لأن الدخول الحكمي لا يوجب التحريم.
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144201200522
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن