بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا آپ نے مجھے طلاق دے دی ہےتو میرے شوہر نے کہا ہاں


سوال

 میں اپنے شوہر سے ناراض ہوکر اپنی امی کے گھر چلی گئی تھی میں نے کہا تھا میں نے کبھی نہیں آنا مجھے طلاق دے دو ، میرے شوہر نے کہا تم گھر آجاؤ اگر میں وہ کام نہ کر سکا تو تم ہمیشہ کے لیے چلی جانا پھر کبھی واپس نہ آنا، میں نے ان کی بات مانی اور میں اپنے شوہر کے گھر آگئی مگر میرے شوہر وہ کام نہ کر سکے، کچھ دن انہوں نے کہا تو کیا ہر وقت مجھے کہتی ہو مجھے طلاق دو مجھے طلاق دو میں نے پوچھا کیا آپ نے مجھے طلاق دے دی ہےتو  میرے شوہر نے کہا ہاں، اور ايک دن غیر اردی طور پر غصے میں کہا تم فلاں سے نکاح کر لو، کیاایسی طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  سائلہ نے شوہر سے پوچھا کیا ''آپ نے مجھے طلاق دے دی ہے  ''کے جواب میں شوہر نے یہ کہا کہ:”ہاں “   تو اس سے سائلہ پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی، سائلہ  کی عدت ( مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور ماہواری آتی ہو، ورنہ اگر حمل ہو تو بچہ جننے تک، اور اگر ایام ہی نہ آتے ہوں تو تین ماہ)   میں شوہر کو رجوع کا حق ہے، عدت میں رجوع کرلینے سے نکاح برقرار رہے گا، اور اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو  بیوی کی عدت ختم ہوتے ہی نکاح ختم ہوجائے گا، اس کے بعد باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے نئے مہر کے ساتھ  دوبارہ عقد نکاح کرنا ہوگا، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا، نیز شوہر کا غصے میں کہنا كه تم فلاں سے نکاح کر لو، اگر شوہر نے عدت میں  طلاق کی نیت سے کہا تھا تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوچکی ہے اور نکاح ختم ہوچکا ہے، اور اگر شوہر مذکورہ جملے سے طلاق کی نیت نہ ہونے پر حلف اٹھالے تو اس سے کوئی طلاق نہیں ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و قوله طلقت امرأتك) وكذا تطلق لو قيل له ألست طلقت امرأتك على ما بحثه في الفتح من عدم الفرق في العرف بين الجواب بنعم أو بلى كما سيأتى في الفروع آخر هذا الباب(قوله طلقت)اى بلا نية على ما قررنا ه آنفا . "

(كتاب الطلاق،باب الصريح، ج:3،ص: 249،ط: سعید،)

و فیہ ایضاً:

" اذهبي وتزوجي تقع واحدة بلا نية.

(قوله: تقع واحدة بلا نية) لأن تزوجي قرينة، فإن نوى الثلاث فثلاث بزازية، ويخالفه ما في شرح الجامع الصغير لقاضي خان: ولو قال: اذهبي فتزوجي وقال: لم أنو الطلاق لايقع شيء؛ لأن معناه إن أمكنك اهـ إلا أن يفرق بين الواو والفاء وهو بعيد هنا بحر، على أن تزوجي كناية مثل اذهبي فيحتاج إلى النية فمن أين صار قرينة على إرادة الطلاق باذهبي مع أنه مذكور بعده والقرينة لا بد أن تتقدم كما يعلم مما مر في اعتدي ثلاثا فالأوجه ما في شرح الجامع، ولا فرق بين الواو والفاء، ويؤيده ما في الذخيرة اذهبي وتزوجي لايقع إلا بالنية وإن نوى فهي واحدة بائنة، وإن نوى الثلاث فثلاث."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3،ص:249ط: سعيد)

النهر الفائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"ولو قال: (اذهبي) فتزوجي وقال: لم أنو لم يقع لأن معناه إن أمكنك، قاله قاضي خان والمذكور في (الحافظية) وقوعه بالواو بلا نية، ولو قال: إلى جهنم وقع إن نوى، كما في (الخلاصة) والله الموفق، (ابتغي الأزواج) إن قدرت أو لأني طلقتك ومثله تزوجي."

(كتاب الطلاق، فصل في الطلاق قبل الدخول، ج:2،ص:360،ط: دارالكتب العلمية بيروت)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102205

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں