بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالبیع کامبیع سےحاصل شدہ رقم میں تصرف کرنا


سوال

میرا ایک مکان تھا میرا بھائی اس بارے میں مجھ سے کہنے لگاکہ میں آپ کا یہ مکان فروخت کرتاہوں ،میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن میں نے شرط یہ لگائی   کہ پوری رقم مجھے بھیج دینا ،انہوں نے مکان فروخت کر کے مجھے بتایا کہ یہ مکان دو لاکھ روپے (200000) میں فروخت ہوا ہے ،جب کہ خریدنے والے نے بتایا کہ میں نے یہ مکان دو لاکھ پچاس ہزار (2500000)  میں خریدا ہے، میرے بھائی نے مجھے ایک لاکھ تیس ہزار روپے (1300000)  ادا کیے ،اور کہا کہ  میں نے باقی ستر ہزار روپے(70000)  کے دو پلاٹ  خرید لیے ہیں ،پھر جب میں نے کہا دو پلاٹ میرے حوالے کردو  تو وہ مختلف حیلے بہانے کرکے بات کو ٹالتا رہا اور کہتا رہا کہ آپ کے پلاٹ موجود ہیں آپ مطمئن رہیں میں ان کا ذمہ دار ہوں ،یہ معاملہ 2002ء میں ہوا تھا ،اور اب وہ بھائی   2022ء میں کہہ رہا ہے کہ میرے پاس آپ کے ستر ہزار روپے ہیں ،جب کہ میں آج 2022ء میں ستر ہزار  روپےپر راضی نہیں ہوں کیونکہ اس نے  2002ء سے لے کر آج تک مجھے پلاٹوں کے بارے میں اطمینان دلایا تھا اور اسکی مکمل ذمہ داری  بھی قبول کی تھی ، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس کے ذمہ میرے دو پلاٹ بنتے ہیں یا نہیں ؟ 

جواب

واضح رہے کہ جب کسی آدمی کو کسی چیز کے خریدنے کا یا فروخت کرنے کا وکیل بنایا جائےتو وہ خریدی ہوئی چیز وکیل کے پاس بطور امانت کے ہوتی ہے ،وہ اس میں مالک کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا تصرف نہیں کرسکتا،اور اگر وکیل نےاس چیز میں کسی قسم کا تصرف کیا تو وہ وکیل اس کا ضامن ہوگا،لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے اپنے بھائی کو مکان فروخت کرنے کا وکیل بنایا ،اور پھر اس کی کچھ رقم سے سائل کے لیےدو پلاٹ خرید لیے،اور بعد میں سائل نے ان پر رضامندی ظاہر کر دی تو سائل کا حق ان پلاٹوں سے متعلق ہوگیا ،اور وہ پلاٹ  سائل کی ملکیت ہیں،اور سائل کے بھائی کے پاس بطور امانت ہیں جن کی ادائیگی اس بھائی کے ذمہ لازم ہے،لہذا سائل اس سےاپنے دونوں پلاٹوں کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے۔

شرح المجلۃ میں ہے:

"المال الذی قبضہ الوکیل بالبیع والشراء وایفاء الدین واستیفائہ وقبض العین من جھۃ الوکالۃ فی حکم الودیعۃ فی یدہ."

(الکتاب الحادی عشر فی الوکالۃ ،:613/2: ط مکتبہ رشیدیہ)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"ليس ‌لمن ‌وكل باشتراء شيء معين أن يشتري ذلك الشيء لنفسه حتى لا يكون له وإن قال: عند اشترائه اشتريت هذا لنفسي بل يكون للموكل."

(كتاب الوكالة ،الباب الثالث ،:593/3:ط دارالجیل)

فتح القدير ميں هے:

"ولو وكله بشراء شيء بعينه فليس له) أي الوكيل (أن يشتريه لنفسه) أي لا يجوز، حتى لو اشتراه لنفسه يقع الشراء للموكل سواء نوى عند العقد الشراء لنفسه أو صرح به لشراء لنفسه."

(كتاب الوكالة، فصل في الوكالة في الشراء،:44/8: ط: دارالفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں