بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی محنت کی کمائی میں بھائیوں کا حصہ کا مطالبہ کرنا


سوال

میں اپنے گھر سے سن 1998سے مزدوری کے لیے نکلا،تقریباً6 سال تک مزدوری کی،پھر اس کے بعد مستقل کاروبار کا ارادہ کیا ،پھر چونکہ اس کے لیے میرے پاس اتنی رقم نہیں تھی ،جس سے کاروبار شروع کرتا تو میں نے اپنے والد  صاحب کے واسطہ اپنے رشتہ دار سے کچھ رقم مانگ لی جس پر اس نے دینے سے انکار کیا ،پھر میں نے اپنے بھائی کو بھیجا تو اس کو بھی نہیں دیا پھر میں نے والد اور بھائی سے کہا کہ آپ لوگ مجھے لے کر جاؤوہ مجھے دے گا ،پہلے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں دیا ہے آپ کو کیسے دے گا بالآخر وہ مجھے لے کر گئے تو اس رشتہ دار نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کاروبار کرنا ہے تو میں پوری تفصیل بتا دی کہ مشینی بلاک کا کاروبار کرنا ہے اور مجھے اس میں تجربہ ہوگیا ہے پھر اس نے پوچھا کہ کتنی رقم کی ضرورت ہے تو میں نے 50 لاکھ کہا لیکن اس نے کہا میرے پاس اتنا تو نہیں اس نے 4 لاکھ دے دیے جس پر میں نے کاروبار شروع کیا اور آج تک ہے ،تقریباً16 سال ہورہے ہیں اس کاروبار کے ،اسی دوران میں نے اپنی کمائی سے والد کے لیے دو موٹر سائیکل خریدے ،ان کو عمرہ کرایا ،تجہیز وتکفین کا خرچہ میں نے کیا اس کے علاوہ والدین کا جتنا بھی خرچ تھا میں ہی کرتا رہا اب جب اللہ نے مجھے اپنی محنت سے بہت دیا ابھی میرے دوسرے بھائی  کہتے ہیں کہ اس میں ہم بھی آپ کے ساتھ شریک ہیں لہذا آپ ہمیں اپنا اپنا حصہ دے دو تو کیا میرے اس کاروبار میں میرے دیگر بھائیوں کا شریعت میں کوئی حصہ ہوسکتا ہے جبکہ یہ میرے والد کی میراث نہیں ہے ،اس کا مالک صرف میں ہی ہو ں اور ان کا حصوں کا مطالبہ کرنا کیسا ہے ؟

جواب

صورت ِمسئولہ میں اگر مذکورہ رشتہ دار نے سائل ہی کو مذکورہ چار لاکھ روپے براہ راست دیے اور پھر  سائل نے اپنی محنت سے کمائی کی اور اس میں والد یا  کوئی بھائی اس کے ساتھ مالی یا عملی طور پر کاروبار میں شریک نہیں تھا تو سائل نے اس کاروبار سے جو کچھ کمایا ہے وہ سائل کی ملکیت ہےدیگر بھائیوں کا اس میں کوئی حق نہیں  ،لہذا سائل کے بھائیوں کا ان سے حصہ کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ۔

حدیث میں ہے :

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألالاتظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا ‌بطيب ‌نفس ‌منه."

(باب الغصب والعاریۃ،الفصل الثانی،ج:۲،ص:۸۸۹،المکتب الاسلامی)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :

"(المادة 97) : لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد ‌بلا ‌سبب ‌شرعي."

(المقالۃ الثانیۃ فی بیان القواعد الفقہیۃ،ص:۲۷،نور محمد کتب خانہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307101828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں