بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی مملوکہ زمین،وقف قبرستان اور غیر کی زمین میں قبر کے اطراف پر درخت لگانے کے احکام


سوال

عین قبر پر تو درخت لگانا ناجائز ہے،کیا اطراف یعنی سر کی یا پیر کی جانب درخت لگاسکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب

درخت لگانا مستحب عمل ہے ،تاہم قبر کے اطراف میں درخت لگانے کی مختلف صورتیں اور شرائط درج ذیل  ہیں :

1)اپنی  مملوکہ زمین میں :

الف:تو اس بات کی رعایت کی جائے  کہ درخت کی جڑوں یا آبیاری کی وجہ سے قبر کو نقصان نہ پہنچے۔

ب:درخت کے نصب کرنے اور اس کی دیکھ بھال میں قبر کو روندنا نہ ہو۔

1)اگر وقف  قبرستان میں  درخت لگائے  جائیں:

الف:وقف قبرستان میں درخت لگانے سے درخت بھی وقف ہو جائیں گے۔

ب:وقف کے احکامات میں سے ہے کہ جس چیز کو جس مقصد کے لیے وقف کیا جائے اسی کام میں لایا جائے،چناں چہ قبرستان میں اس طرح درخت لگانا کے قبروں کی جگہ مشغول ہوجائے جائز نہیں،البتہ اگر واقف کی طرف سے صراحۃ ً یا دلالۃً اجازت ہو تو جائز ہے۔

ج:اجازت کےبغیر  مقبرہ کی فارغ زمین میں  ایسے درخت لگانا کےاصل مقصد یعنی دیگر میت کی تدفین میں حرج اور تنگی لازم نہیں آئے جائز ہے۔

د:ان درختوں کے پھلوں کی بیع جائز ہوگی اور قیمت کو قبرستان کے کام میں لایا جائے گا،جب کہ عامۃ الناس بھی یہ پھل کھا سکتے ہیں ۔

ھ:درخت لگانے،اس کی دیکھ بھال میں قبروں کی بے توقیری اور روندنا نہ ہو۔

اگرزمین  غیر کی مملوکہ ہو  :

ضروری ہے کہ زمین کے مالک سے درخت لگانے کی اجازت لی جائے،ورنہ زمین کے مالک کو حق ہوگا کہ درخت لگانے والے کو درخت اکھیڑنے کا پابند کرے۔

 صحیح مسلم میں ہے :

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ما من مسلم يغرس غرسا إلا كان ما أكل منه له صدقة. وما سرق له منه صدقة. وما أكل السبع منه فهو له صدقة. وما أكلت الطير فهو له صدقة. ولا يرزؤه أحد إلا كان له صدقة)."

(كتاب المساقاة،باب فضل الغرس والزرع،ج3،ص1188،رقم:1552،ط:دار إحياء التراث العربي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌للمالك ‌أن ‌يتصرف ‌في ‌ملكه أي تصرف شاء."

(كتاب الدعوى،فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل،ج6،ص264،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"للمستأجر غرس الشجر بلا إذن الناظر، إذا لم يضر بالأرض.

(قوله: للمستأجر غرس الشجر إلخ) كذا في الوهبانية، وأصله في القنية: يجوز للمستأجر غرس الأشجار والكروم في الأراضي الموقوفة، إذا لم يضر بالأرض بدون صريح الإذن من المتولي، دون حفر الحياض."

(کتاب الوقف، ج3،ص454،ط: سعید)

الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"القبر محترم شرعا توقيرا للميت، ومن ثم اتفق الفقهاء على كراهة وطء القبر والمشي عليه، لما ثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى أن توطأ القبور."

(قبر،احترام القبر،ج32،ص245،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

کفایت المفتی میں ہے:

"(جواب 115)مقبرہ کی فارغ زمین میں ایسے طور پر درخت لگانا کہ اصل غرض یعنی دفن اموات میں نقصان نہ آئے جائز ہے۔ان درختوں کے پھلوں کی بیع جائز ہوگی اور پھلوں کی قیمت قبرستان کے کام میں لائی جائے گی ،جواز کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ درخت لگانے ،ان کی حفاظت کرنے پھلوں کے توڑنے اور اس کے متعلقہ کاموں میں قبروں کا روندا جانا نہ پایا جائے ۔"

(ج7،ص120-121،ط:دار الاشاعت)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"(الجواب 1040)اگر قبرستان وقف ہے تو وه درخت بھی وقف ہوگئے،كسی كو ان كا كاٹنا يا لينا درست نہيں ."

(ص180،ج14،ط:دار الاشاعت)

وفيه ايضاّ:

"الجواب(1042) قاعدہ یہ ہے کہ جو زمین جس کام کے لیے وقف ہوتی ہے ،اس کو اس کام میں لانا چاہیے،پس جو زمین قبرستان بنائی گئی،اور عام مسلمانوں کے دفن کے لیے وقف کی گئی ،اس میں اس طرح درخت لگانا کہ قبروں کی جگہ مشغول ہو جائے درست نہیں،البتہ اگرواقف کی طرف سے اس کی اجازت صراحۃً یا دلالۃ ً ہو تو جائز ہے اور جس صورت میں کہ ایک ایسے کنارہ پر درخت لگایا جائے کہ اس سے قبروں کی زمین میں تنگی نہ ہو تو یہ درست ہے اور جس صورت میں درست ہے اس صورت میں اس کاپھل عام لوگ کھا سکتے ہیں ،درمختار میں ہے:‌"غرس ‌في ‌المسجد ‌أشجارا تثمر إن غرس للسبيل فلكل مسلم الاكل، وإلا فتباع لمصالح المسجد..........(قوله: إن غرس للسبيل) وهو الوقف على العامة (‌‌كتاب الوقف،فروع مهمة،ج4،ص432،ط:سعید)."

(ص181،ج14،ط:دار الاشاعت)

الدر المختار  میں ہے:

"ومن ‌بنى ‌أو ‌غرس ‌في ‌أرض ‌غيره ‌بغير ‌إذنه ‌أمر ‌بالقلع ‌والرد."

 (كتاب الغصب،ج6،ص194،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں