اگر کوئی شخص اپنی ماں سے نکاح کرے اور نکاح کے بعد ہمبستری بھی کرے تو اس شخص پر حد جاری ہوگی یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں کوئی شخص اس بات کو جاننے کے باوجود( کہ محارم سے نکاح کرنا حرام ہے)اگر اپنی ماں سے نکاح کرے اور پھر ہمبستری بھی کرلے توایسے شخص پر حد زناجاری ہو گی یا نہیں، اس میں ائمہ کا اختلاف ہے،امام ابویوسف، امام محمد اور ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک اس پر حد زنا جاری ہوگی، اورامام ابوحنیفہ ،سفیان ثوری اور امام زفررحمہم اللہ کے نزدیک اس پر حد زنا جاری نہیں ہو گی،بلکہ اس پر سخت سے سخت تعزیر ہو گی اور تعزیر میں اس کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے،اگراس سوال کی مزید تفصیل اور وضاحت مطلوب ہو تو امام حرّیت شیخ الہندحضرت مولانامحمود حسن صاحب دیوبندی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب "ادلّہ کاملہ یعنی غیر مقلدین کے دس سوالات اور ان کے تحقیقی جوابات"میں موجود ہے وہاں مطالعہ کر لیا جائے۔
فتح القدير میں ہے:
"ومن تزوج امرأة لا يحل له نكاحها) بأن كانت من ذوي محارمه بنسب كأمه أو ابنته (فوطئها لم يجب عليه الحد عند أبي حنيفة) وسفيان الثوري وزفر، وإن قال: علمت أنها علي حرام ولكن يجب عليه بذلك المهر ويعاقب عقوبة هي أشد ما يكون من التعزير سياسة لا حدا مقدرا شرعا إذا كان عالما بذلك، وإذا لم يكن عالما لا حد ولا عقوبة تعزير (وقال أبو يوسف ومحمد والشافعي) وكذا مالك وأحمد (يجب الحد إذا كان عالما بذلك)."
(كتاب الحدود،باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه،ج:5،ص: 259،ط:دار الفكر، بيروت)
سنن الترمذي میں ہے:
"عن البراء، قال: مر بي خالي أبو بردة ومعه لواء، فقلت: أين تريد؟ فقال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى رجل تزوج امرأة أبيه، أن آتيه برأسه."
(أبواب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب ما جاء فيمن تزوج امرأة أبيه،ج:3،ص: 193،ط:دار الرسالة العالمية)
العرف الشذي شرح سنن الترمذي میں ہے :
"وجعل أبو حنيفة النكاح شبهة دارئة للحد خلاف غيره، وكذلك فعل في النكاح بالمحارم، وقال: إنه ليس بزنا فلا يحد، وإن كان أشد من الزنا مثل اللواطة."
(كتاب الأحكام،باب فيمن تزوج امرأة أبيه،ج:3،ص: 86،ط:دار التراث العربي -بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101572
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن