بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

اپنی خدمات کے ذریعہ مشینوں کو آٹومیٹک کرنا اور کام سے متعلقہ چیزیں ایجنٹ بن کر خریدنا


سوال

  میں بڑے ادارے میں 24 سال بجلی کے کام  کا انچارج رہنے کے بعد استعفی دے کے اپنا کام شروع کرنے لگا ہوں ، میں نےAutomation Expert کے نام سے ایک کمپنی بنائی ہے،  جس کے ذریعے میں لوگوں کی مشینوں کو آٹومیٹک کرنے کا کام کیا کروں گا ،یعنی کہ لوگ مجھ سے میری خدمات کو خریدا کریں گے۔ کسی نے اپنی مشین پر کوئی آٹومیٹک کام کروانا ہوگا تو مجھ سے درخواست کرے گا ،میں اس کو کوٹیشن بنا کے دوں گا اور اپنے کام کا مناسب معاوضہ لوں گا ،فی الحال میرے ساتھ کوئی آدمی شامل نہیں ہوگا، مگر بعد میں کام چلنے کے بعد میں مزید سٹاف بھی رکھوں گا ،اس کے حوالے سے مجھے راہ نمائی مطلوب ہے کہ اس میں شریعت کے کیا کیا احکامات کا مجھے خیال رکھنا ہوگا؟ یہ بھی ہوا کرے گا کہ اس کام میں جو ہارڈ ویئر سے متعلق چیزیں لگیں گی ، مثلا : پی ایل سی ،ایچ ایم آئی،  ریلیز ، تاریں وغیرہ تو وہ بھی میں اس کمپنی کو خود سے محنت کر کے بازار سے ڈھونڈ کے خرید کر دیا کروں گا اور ان چیزوں کے مارکیٹ ریٹ کے اوپر مناسب معاوضہ بھی لیا کروں گا،یعنی ہارڈ ویئر ڈھونڈ کے دینے کا معاوضہ علیحدہ ہوگا اور سروسز کا معاوضہ علیحدہ ہوگا،اس سے متعلق بھی راہ نمائی فرما دیں کہ مجھے کون کون سی شرعی حدود و قیود کا خیال رکھنا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دومعاملوں کےبارے میں پوچھاگیاہے، ایک اپنی خدمات کے ذریعہ لوگوں کی مشینوں کو آٹومیٹک کرنا (  اجیر مشترک ہونا) دوسرا، اس کام اور اپنی سروسز فراہم کرنے سے متعلق جن چیزوں کی ضرورت ہے ان چیزوں  کو ایجنٹ بن کر بازار سے خرید کر دینا۔

پہلے معاملہ کے لیے شرعایہ ضروری ہے کہ آپ کا عمل (یعنی جو آپ کام کر رہےہیں  وہ معلوم ہو) اور اجرت معلوم ہو ،نیز اس میں کوئی  ایسا کام نہ  ہو  جو خلاف شرع ہو، باقی آپ کا کام چلنے کی صورت میں مزید اسٹاف رکھنا  بھی جائز ہوگا، ان  کے ساتھ ماہانہ اجرت کا معاملہ یا ان کے کام وغیرہ کے حساب سے کمیشن طے کرسکتے ہیں۔

دوسرے معاملہ کے لیے آپ مذکورہ سامان خریداروں کی طرف سے ان کی رقم سے خریدیں گے تو اس صورت میں سامان کی خریداری پر مجموعی اجرت کا باہمی رضامندی سے طے کرنا ضروری ہے اور ان کا مطلوبہ سامان خود خرید کر دیں تو اس صورت میں قیمت پر کچھ زیادہ رقم بڑھا کر فروخت کرسکتے ہیں، لیکن ہر معاملہ فریق ثانی کے ساتھ طے کر کے کرنا ضروری ہوگا۔      

بدائع الصنائع میں  ہے:

"وكذا بيان المعمول فيه في الأجير المشترك، إما بالإشارة والتعيين، أو ببيان الجنس والنوع والقدر والصفة في ثوب القصارة والخياطة وبيان الجنس والقدر في إجارة الراعي من الخيل أو الإبل أو البقر أو الغنم وعددها؛ لأن العمل يختلف باختلاف المعمول."

(کتاب الإجارة، فصل في انواع شرائط ركن الإجارة، ج:4، ص:184، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها بيان العمل في استئجار الضياع، وكذا بيان المعمول فيه في الأجير المشترك بالإشارة والتعيين، أو بيان الجنس والنوع والقدر والصفة في ثوب القصارة والخياطة، وبيان الجنس والقدر في إجارة الراعي من الخيل والإبل والبقر والغنم وعددها،  ۔۔۔۔۔ ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا."

(كتاب الإجارة، الباب الاول في تفسير الإجارة ركنها والفاظها وشرائطها، ج:4، ص:411، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: ‌أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه."

(کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508100616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں