بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی جگہ بھائی کو ملازمت پر بھیجنا


سوال

 میری کوئی جاب ہوجاۓ ،اور میں بذاتِ خود چند معقول وجوہات (جیسے کہ کسی بہتر پوسٹ کی تیاری وغیرہ) کی بنا پر نہ جاؤں اور میں اپنے سگے بھائی جو اس جاب کے حصول کے لیے پہلے سالوں میں میرٹ پر آیا ہو،لیکن حکومت کی نالائقی اور قدغن کی وجہ سے منتخب نہ ہوا ہو،اس کواپنی جگہ  اس جاب کرنے  کے لیے بھیجتا ہوں، اور یہ بھی سب کے علم میں ہے کہ یہ بندہ اس جاب کی لیاقت اور قابلیت بھی رکھتا ہے اور یہ بھی طے ہوا ہے کہ اگر وہ کسی دن بلا کسی عذر کے جاب کرنے نہیں جاتا ہو تو اس دن کی تنخواہ گورنمنٹ کو واپس کی  جائے گی تو کیا اس مندرجہ بالا صورت میں ہمارے لیے یہ تنخواہ حلال ہے؟

نوٹ:  پوسٹ گاؤں کے سکول میں JVT سکیل 9 کا ہے، اور ملک کے ان سخت مہنگائی کے حالات کو بھی پیش نظر ہو، آپ کی معاونت مطلوب ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل  حکومت سے اجازت لیے بغیر  اپنی جگہ اپنے بھائی کو بھیجتا ہے،مذکورہ ملازمت کرنے کے لیے تو ایسا کرنا  ناجائز ہوگا، اور اس کی تنخواہ وصول کرنا بھی حلال نہیں ہوگا، لیکن  اگر سائل حکومت سے اجازت لے کر اپنی جگہ ملازمت کرنے کے لیے اپنے بھائی کو بھیجتا ہے،یا حکومت کی طرف سے اختیار ہے چاہے خود آۓ یا کسی اور کو بھیج دے، تو ایسی صور ت میں اپنی جگہ اپنے بھائی کو بھیجنا مذکورہ ملازمت کرنے کے لیے  جائز ہوگا۔

شرح المجلہ للاتاسی میں ہے:

"(الأجير الذي استؤجر على ان يعمل بنفسه ليس له ان يستعمل غيره: مثلا لو اعطي احد جبة لخياط على ان يخيطها بنفسه بكذا درهم،فليس للخياط ان يخيطها بغيره، وإن خاطها بغيره وتلفت فهو ضامن) ..... لأن المعقود عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه كما اذا كان المعقود عليه المنفعة،بأن استأجر رجلاّ شهرا للخدمة لايقوم غيره مقامه لأنه استيفاء للمنفعة  بلا عقد  ...... قال الشارح  سليم باز قلت لاتردد از لوكان الخياط حريفا لهذه الصنعة وجب له اجر المثل ....   (لو اطلق العقد حین الاستئجار فللاجیر ان یستعمل غیرہ) لأنه بالاطلاق رضى بوجود عمل غيره."

(الباب السادس، الفصل السابع في اجارة الآدمي،(المادة:571/572)،671:672/2،ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا شرط عمله بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره خلاصة (وإن أطلق كان له) أي للأجير أن يستأجر غيره، أفاد بالاستئجار أنه لو دفع لأجنبي ضمن الأول

(قوله: بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك) هذا ظاهر إطلاق المتون وعليه الشروح، فما في البحر والمنح عن الخلاصة من زيادة قوله ولا تعمل بيد غيرك فالظاهر أنه لزيادة التأكيد لا قيد احترازي ليكون بدونه من الإطلاق تأمل.

(قوله: لايستعمل غيره) ولو غلامه أو أجيره قهستاني؛ لأن عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه كما إذا كان المعقود عليه المنفعة، بأن استأجر رجلا شهرا للخدمة لا يقوم غيره مقامه؛ لأنه استيفاء للمنفعة بلا عقد زيلعي.

قال في العناية: وفيه تأمل،؛ لأنه إن خالفه إلى خير بأن استعمل من هو أصنع منه أو سلم دابة أقوى من ذلك ينبغي أن يجوز اهـ وأجاب السائحاني بأن ما يختلف بالمستعمل فإن التقييد فيه مفيد وما ذكر من هذا القبيل اهـ.

وفي الخانية: لو دفع إلى غلامه أو تلميذه لا يجب الأجر اهـ.

وظاهر هذا مع التعليل المار أنه ليس المراد بعدم الاستعمال حرمة الدفع مع صحة الإجارة واستحقاق المسمى أو مع فسادها واستحقاق أجر المثل وأنه ليس للثاني على رب المتاع شيء لعدم العقد بينهما أصلا وهل له على الدافع أجر المثل؟ محل تردد فليراجع. (قوله: بشرط وغيره) لكن سيذكر الشارح في الإجارة الفاسدة عن الشرنبلالية أنها لو دفعته إلى خادمتها أو استأجرت من أرضعته لها الأجر إلا إذا شرط إرضاعها على الأصح، وكأن وجه ما هنا أن الإنسان عرضة للعوارض فربما يتعذر عليها إرضاع الصبي فيتضرر فكان الشرط لغوا تأمل (قوله: وإن أطلق) بأن لم يقيده بيده وقال خط هذا الثوب لي أو اصبغه بدرهم مثلا؛ لأنه بالإطلاق رضي بوجود عمل غيره قهستاني."

( كتاب الاجارة، شروط الاجارة،18/6، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں