بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی جگہ کسی اور کو بھیج کر تنخواہ وصول کرنا


سوال

ایک شخص سرکاری ادارے میں ملازم ہے، سرکاری قوانین کے مطابق کسی کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی جگہ کسی اور سے اپنا کام  (ڈیوٹی) کروائیں اور نہ کسی افسر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے کسی ماتحت ملازم کی ڈیوٹی کسی اور سے کروائیں، اس صورت میں مذکورہ ملازم کی تنخواہ جو وہ گھر بیٹھے وصول کررہا ہے حرام ہے یا حلال؟ جب کہ وہ ملازم اپنی جگہ اپنے والد کو ڈیوٹی پر بھیج رہا ہو۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ ادارے میں سرکاری قوانین کے مطابق کسی افسر یا ملازم کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی جگہ کسی اور سے اپنا مفوضہ کام  (ڈیوٹی) کروائیں اور نہ ہی کسی افسر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے کسی ماتحت ملازم کی ڈیوٹی کسی اور سے کروائیں، بلکہ افسران یا ملازم کے لئے بذات خودجائےملازمت پر حاضر ہونا اور مفوضہ ذمہ داری ادا   کرنا ضروری ہے تو اس صورت میں افسران یا ملازم کے  لئے اپنی جگہ کسی اور سے اپنا مفوضہ کام کروانا جائز نہیں اور ذمہ داری ادا کئے بغیر تنخواہ لینا بھی ناجائز اور حرام ہے۔

"الأجير الذي استؤجر على أن يعمل بنفسه ليس له أن يستعمل غيره مثلا لو أعطى أحد جبة لخياط على أن يخيطها بنفسه بكذا دراهم، فليس للخياط أن يخيطها بغيره وإن خاطها بغيره وتلفت فهو ضامن."

(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، الكتاب الأول البيوع، الباب السادس في بيان أنواع المأجور وأحكامه، الفصل الرابع في بيان إجارة الآدمي، (المادة 571) الأجير الذي استؤجر على أن يعمل بنفسه ليس له أن يستعمل غيره: ۱/ ۶۵۷، ط: دار الجيل)

"(وإذا شرط عمله بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره خلاصة۔"

(رد المحتار علی الدر المختار، كتاب الإجارة، شروط الإجارة:۶/  ۱۸، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100560

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں