بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی فرم کے کاغذات اس ترتیب سے بنانا کہ مرنے کے بعد اولاً بیوی کو ملے اور بعد میں بیٹیوں کے ملے


سوال

میری ایک فرم ہے جو میرے نام ہے اور میری کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے، تین بیٹیاں ہیں ۔ میں نے کاغذات ایسے بنائے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد یہ فرم میری بیگم کے نام ہوجائے گی اور میری بیگم کے مرنے کے بعد یہ میری تینوں بیٹیوں کے نام ہوجائے گی۔ کیا یہ ٹھیک ہے یا اور کوئی حق دار بھی اُٹھ سکتا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ  کسی بھی شخص کے انتقال کے بعد اس  کی جائیداد  میں سب سے اَوّل مرحوم کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جاتے ہیں، (سوائے اُس عورت کی تجہیز و تکفین کے اخراجات، جس کا شوہر موجود ہو؛ کیوں کہ اس کا خرچہ شوہر کے ذمے واجب ہوتاہے)، پھر اگر مرحوم پر  کوئی قرض تھا تو وہ ادا کیا جاتا ہے، پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت(ورثاء کے علاوہ کسی کے لیے) کی ہو تو  بقیہ مال کے ایک تہائی میں وہ نافذ کی جاتی ہے اور اس کے بعد بقیہ مال موجود ورثاء  میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مرحوم کو اپنی زندگی میں یہ اختیار نہیں ہوتا کہ اس کے   مرنے کے بعداس  کی جائیداد کسی ایک وارث کی ہوجائے اور پھر اس مخصوص وارث کے مرنے کے بعد باقی ورثاء کو ملے۔ اگر مرحوم اپنی زندگی میں اس کی وصیت کر کے بھی جائے تب بھی مرحوم کی یہ بات متعبر نہیں ہے۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائل  کا ایسے کاغذات بنانا  جس میں بیوی کو اولًا جائیداد ملے گی اور بیوی کے مرنے کے بعد بیٹیوں کو ملے گی درست نہیں ہے،  بلکہ شریعت کا ضابطہ طے ہے کہ سائل کے مرنے کے بعد  مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق حقوق ادا کرکے بقیہ ترکے میں سے سائل کی بیوی(اگر اس وقت زندہ ہو) کو آٹھواں ، بیٹیوں (اگر اس وقت زندہ ہوں ) کو  دو تہائی اور  باقی سائل کے عصبات (یعنی سائل كےبھائی،بهن يا بھتیجے   یا چچا یا چچا کے بیٹے  )کو بالترتیب    ملے گا۔   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں