بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کےلیے اپنی عزت بچانے کی خاطر خودکشی کرنے کا حکم


سوال

کیاعورت اپنی عزت بچانےکےلیےخودکشی کرسکتی ہے؟جیسا کہ جب پاکستان بناتوکچھ عورتوں نےاپنی عزت بچانےکےلیےخودکشی کی  یاآج کل اگرگھرمیں چورہواورچور عورت کےساتھ زیادتی کرنےلگ جائےتوکیااس صورت میں اس عورت  کواپنی عزت بچانےکےلیےاپنےآپ کو مارناجائزہوگایانہیں؟

جواب

واضح رہے کہ خودکشی کرنا شریعت کی طرف سے حرام کردہ ایک سنگین گناہ ہے، لہٰذا ایک عورت کے لیے اپنی عزت بچانے کے لیے خودکشی کرنے کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ زبردستی زنا کرنا چاہے تو اس عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنی عزت کا دفاع کرے، اور اگر اس دفاع کے دوران عورت اس شخص کو قتل کردیتی تو عورت گناہ گار نہ ہوگی، اور اگر عورت کو قتل کردیا جاتا ہے تو وہ عند اللہ ثواب کی مستحق ہوگی۔

غرض کہ عورت آخرتک دفاع کرےگی تووہ گنہگار نہیں ہوگی،البتہ خودکشی کی اجازت نہیں ہوگی۔

"آپ کے مسائل اور ان کا حل "میں اس مسئلہ سے متعلق لکھا ہے کہ:

"س: اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے اور خود کشی کرنے والے کو جہنم کا سزاوار کہا ہے، زندگی میں بعض مرتبہ ایسے سنگین حالات پیش آتے ہیں کہ لڑکیاں اپنی زندگی کو قربان کرکے موت کو گلے لگانا پسند کرتی ہیں، دوسرے الفاظ میں وہ خودکشی کرلیتی ہیں، مثلاً اگر کسی لڑکی کی عصمت کو خطرہ لاحق ہو اور بچاؤ کا کوئی بھی راستہ نہ ہو تو وہ اپنی عصمت کی خاطر خودکشی کرلیتی ہے، اس کا عظیم مظاہرہ تقسیمِ ہند کے وقت دیکھنے میں آیا، جب بے شمار مسلمان خواتین نے ہندوؤں اور سکھوں سے اپنی عزت محفوظ رکھنے کی خاطر خودکشی کرلی، باپ اپنی بیٹیوں کو اور بھائی اپنی بہنوں کو تاکید کرتے تھے کہ وہ کنویں میں کود کر مر جائیں، لیکن ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھ نہ لگیں، آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں براہِ کرم یہ بتائیں کہ مندرجہ بالا حالات میں لڑکیوں اور خواتین کا خودکشی کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ج: قانون تو وہی ہے جو آپ نے ذکر کیا، باقی جن لڑکیوں کا آپ نے ذکر کیا ہے، توقع ہے کہ ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ ہوگا۔"

(جائز و ناجائز، عصمت کے خطرے پیشِ نظر لڑکی کا خودکشی کرنا، ج: ۸، ص: ۲۴۲ - ۲۴۳، ط: مکتبہ لدھیانوی)

"مرقاة المفاتيح" میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تردى من جبل فقتل نفسه ; فهو في نار جهنم يتردى فيها خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تحسى سما فقتل نفسه ; فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن قتل نفسه بحديدة، فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا» ". متفق عليه."

قال الطيبي رحمه الله: والظاهر أن المراد من هؤلاء الذين فعلوا ذلك مستحلين له وإن أريد منه العموم، فالمراد من الخلود والتأبيد المكث الطويل المشترك بين دوام الانقطاع له، واستمرار مديد ينقطع بعد حين بعيد لاستعمالهما في المعنيين، فيقال: وقف وقفا مخلدا مخلدا مؤبدا، وأدخل فلان حبس الأبد، والاشتراك والمجاز خلاف الأصل فيجب جعلهما للقدر المشترك بينهما للتوفيق بينه وبين ما ذكرنا من الدلائل."

(كتاب القصاص، ج: 6، ص: 2262، ط: دار الفكر بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو أكره على القتل والزنا لا يرخص له أن يفعل أحدهما، ولو امتنع عنهما لا يأثم إذا قتل بل يثاب."

(كتاب الإكراه، 181/7، ط: دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا ‌أكرهت ‌على ‌الزنا فمكنت من نفسها فلا إثم عليها، وهذا كله إذا كان الإكراه بوعيد تلف، فإن كان الإكراه بوعيد سجن أو قيد فعلى الرجل الحد بلا خلاف، وأما المرأة فلا حد عليها ولكنها تأثم، ولو امتنع المكره عن الزنا حتى قتل فهو مأجور، كذا في المحيط."

(كتاب الإكراه، 48/5، ط: رشيديه)

"الفقه الإسلامي وأدلته" میں ہے:

"حكم الدفاع عن العرض: إذا أراد فاسق الاعتداء على شرف امرأة، فيجب عليها باتفاق الفقهاء أن تدافع عن نفسها إن أمكنها الدفع؛ لأن التمكين منها للرجل حرام، وفي ترك الدفاع تمكين منها للمعتدي، ولها قتل الرجل المكره، ولو قتلته كان دمه هَدراً، إذا لم يمكن دفعه إلا بالقتل. وكذلك يجب على الرجل إذا رأى غيره يحاول الاعتداء على امرأة أن يدفعه، ولو بالقتل إن أمكنه الدفاع، ولم يخف على نفسه؛ لأن الأعراض حرمات الله في الأرض، لا سبيل إلى إباحتها بأي حال، سواء عرض الرجل أو عرض غيره. ولا يسأل المدافع جنائياً ولا مدنياً، فلا قصاص ولا دية عليه، لظاهرالحديث: «من قتل دون أهله فهو شهيد» ولما ذكره الإمام أحمد من حديث الزهري بسنده عن عبيد بن عمير: «أن رجلاً أضاف ناساً من هذيل، فأراد امرأة على نفسها، فرمته بحجر فقتلته، فقال عمر: والله لا يودى أبداً»، ولأنه إذا جاز الدفاع عن المال الذي يجوز بذله وإباحته، فدفاع المرأة أو الرجل عن أنفسهم، وصيانتهم عن الفاحشة التي لاتباح بحال: أولى."

(القسم الرابع: الملكية وتوابعها، الباب الثاني: توابع الملكية، الفصل الثامن: دفع الصائل، ج: 6، ص: 4846، ط: دار الفكر دمشق)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100890

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں