بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض نہ ملنے کی وجہ سے اپنی چیز دوبارہ خریدنے کی شرط پر بیچنا


سوال

کچھ دنوں پہلے مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑگئی  تو میں نے سوچا کہ  اپنے دوست سے مانگ لوں ،اس کے پاس پیسے تھے، لیکن اس نے کہا:  میں نہیں دے سکتا ، پھر میں نے اس سے کہا:  میرا گھر خریدلو بیس  لاکھ  کا ہے ، میں تین مہینے بعد ساڑھے بائیس  لاکھ کا آپ سے دوبارہ لے لوں گا ، اس پر وہ رضامند ہوگیا اور میں نے اس سے پیسے لے لیے ، شرعی رہ نمائی فرمائیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے اس میں؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ چوں کہ  آپ کا مقصد  اصلاً  اس  گھر کی خرید وفروخت سے اضافے کے ساتھ  قرض کا لین دین ہے ، گھر کی خرید وفروخت مقصد نہیں،   اس طرح کی خریدوفروخت  کو شریعت کی اصطلاح میں ’’بیعِ عینہ‘‘ کہتے ہیں جو کہ ناجائز ہے اور سود خوری کا ہی ایک راستہ ہے، اور  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو  رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے، جیسا کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ جب تک تم بیع عینہ کرتے رہوگے اور جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہوگے اور زراعت میں گم ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دوگے تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔

سنن أبي داود (3/ 274):

"باب في النهي عن العينة : 

حدثنا سليمان بن داود المهري، أخبرنا ابن وهب، أخبرني حيوة بن شريح، ح وحدثنا جعفر بن مسافر التنيسي، حدثنا عبد الله بن يحيى البرلسي، حدثنا حيوة بن شريح، عن إسحاق أبي عبد الرحمن، قال سليمان: عن أبي عبد الرحمن الخراساني، أن عطاء الخراساني، حدثه أن نافعا حدثه، عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا تبايعتم بالعينة ، وأخذتم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد، سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم»".

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولايرغب المقرض في الإقراض طمعاً في فضل لايناله بالقرض فيقول: لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهماً وقيمته في السوق عشرة؛ ليبيعه في السوق بعشرة، فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهماً وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثاً فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهماً ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهماً، كذا في المحيط، ... وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال عليه الصلاة والسلام: «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم»".

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:۵ ؍ ۲۷۳، ط:سعید)

لہذا اگر اس طرح کا عقد کرلیا ہے تو اسے فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے اور اللہ رب العزت سے اپنے اس عمل پر سچے دل سے فوری طور پر توبہ کرنا ضروری ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں