بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ اگر تو کل میکہ سے گھر نہیں گئی یا تو نے میکہ میں رہ کر مجھ سے فون پر بات کر لی تو تجھے تین طلاق


سوال

 زید کی بیوی میکہ میں ہے، ان دونوں کے درمیان فون پرجھگڑا ہو جاتا ہے،  زید بیوی سے کہتاہے کہ "اگر تو کل میکہ سے گھر نہیں گئی یا تو نے میکہ میں رہ کر مجھ سے فون پر بات کر لی تو تجھے تین طلاق" اب زید کی بیوی میکہ سے گھر نہیں گئی یہ شرط تو پوری ہو گئی، لیکن زید نے دوسری شرط لگائی تھی کہ "یا میکہ میں رہ کر فون پر بات کی تو۔۔۔" یہ دوسری شرط پوری نہیں ہوئی، یعنی زید کی بیوی نے فون پر بات نہیں کی، تو کیا زید کی بیوی پر صرف ایک شرط کے پائے جانے پر طلاق کا حکم لگایا جائےگا یا دونوں شرائط کے بعد َ؟ اگر زید اتصال کے ساتھ دو یا اس سے زائد شرطیں لگا دیتا مثلاً تو گھر نہیں گئی اور فون پر مجھ سے یا فلاں  سے بات کی یعنی ایک ساتھ کئی شرطیں لگا دیں تو کیا تمام شرائط کا پایا جانا ضروری ہے  وقوعِ طلاق کے لیے؟یا ایک دو شرائط کے واقع ہونے  پر بھی طلاق کا حکم لگا دیا جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   زید نے جب اپنی بیوی سے فون پر یہ کہاکہ "اگر تو کل میکہ سے گھر نہیں گئی یا تو نے میکہ میں رہ کر مجھ سے فون پر بات کر لی تو تجھے تین طلاق" توزید نے اپنی بیوی پر تین طلاق کے واقع کرنے کو  دو کاموں میں سے کسی ایک کام کے ساتھ معلق کیاہےیعنی اگر ان دونوں  کاموں میں سے کوئی بھی کام  پایا گیا تو زید کی پر تین طلاق واقع ہوجائے گی، وہ دو کام  ایک میکہ میں رہ کر زیدکے ساتھ فون پر  بات کرنا اور دوسرا میکہ سے گھر نہ جانا،  اور جب  زید کی بیوی  میکہ سے گھر نہیں گئی تو شرط واقع ہوجانے کی وجہ زید کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی،ہاں اگر زید اپنی بیوی سے یہ کہتاکہ "اگر تو کل میکہ سے گھر نہیں گئی اور تو نے میکہ میں رہ کر مجھ سے فون پر بات کر لی تو تجھے تین طلاق" تو پھر طلاق کے واقع ہونے کے لیے دونوں شرطوں کا پایا جانا ضروری تھا، لیکن صورتِ مسئولہ میں چوں کہ اس طرح نہیں کہاہے، لہٰذا ایک شرط کے پائے جانے کے ساتھ ہی زید کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،زید کی بیوی زید پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکاہے،اب رجوع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی تجدیدِ نکاح ہوسکتاہے،زید کی بیوی اپنی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حاملہ نہ ہو، اور اگر حاملہ ہوتو بچے کی پیدائش تک ) گزار کر کسی اورکے ساتھ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق باشرط،ج:1،ص:425،ط:رشیدیه)

وفیه أیضاً:

"وإن قال: أنت طالق إن أكلت وإن شربت أو قال: إن أكلت فأنت طالق وإن شربت فأيهما وجد نزل الجزاء ولا تبقى اليمين."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق بالشرط،ج:1،ص:428،ط:رشیدیه)

وفیه أیضاً:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في ‌الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها."

(کتاب الطلاق، الباب السادس،ج:1،ص:473،ط:رشیدیه)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

 "فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاعَ الثلاث معًا وإِن كانت معصية."

(ج:1، ص:529 ، ط: قدیمی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں