بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی بیوی کو میں چھوڑ رہا ہوں کہنے کا حکم


سوال

میرے ایک عزیز نے اپنی بیوی کو کہا کہ میں{چھوڑے چھوڑدے چھوڑدے} یہ ہندکو کے الفاظ ہیں، جن کا مطلب یہ ہے کہ میں چھوڑ رہا ہوں ،میں چھوڑ رہا ہوں ،میں چھوڑ رہا ہوں ،اب کیا اس سے طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے عزیز نے اپنی بیوی کو تین مرتبہ یہ الفاظ کہے"کہ میں  چھوڑ رہا ہوں"تو اس صورت  میں  مذکورہ شخص  کی بیوی  پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، نکاح ختم ہوچکا ہے، اب دونوں کا ساتھ رہنا اور جوع کرنا یادوبارہ نکاح کرناجائز نہیں ہے،عدت گزارنے کے بعد بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف فارسية قوله ‌سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ ... فإن ‌سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي ‌سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:299، ط:سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:ـ

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفي ما تحل به، فصل في ماتحل به المطلقة ومایتصل به، ج1، ص473، ط: دارالفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’سوال : ایک شخص نے اپنی بیوی کو جو کہ مدخول بہا ہے، پنجابی زبان میں یہ کہتا ہے کی " میں نے چھوڑی، میں نے  چھوڑی،میں نے  چھوڑی"یعنی تین مرتبہ کہا، کیا ہم ان الفاظ کو مولانا اشرف علی صاحب مرحوم کے اس قول پر تطبیق دے سکتے ہیں جو بہشتی زیور میں طلاق دینے کے متعلق تحریر فرمایاہے،چوتھے حصے میں کہ "میں نے تجھے کو چھوڑ دیا" کنایہ سے تعبیر کیا، زید کہتا ہے کہ یہ لفظ"میں نے چوڑی" یہ صریح نہیں دینے میں اور مولانا نے اپنے اس قول سے رجوع فرمایا ہے، لہذاباعثِ استفسار یہ بات ہوئی کہ ان الفاظ کو صریح یا غیر صریح مانیں؟بیّن طور پر واضح فرمائیے ؟

الجواب حامداًو مصلیاً:یہ لفظ ہمارے عرف میں بمنزلہ صریح طلاق کے ہے، جب کوئی شخص اپنی زوجہ کو یہ الفاظ کہتا ہے تو اس سے بغیر نیت کے رجعی واقع ہوجاتی ہےاور تین مرتبہ مدخول بہا کو کہنے سے مغلظہ ہوجاتی ہے،اور بہشتی زیور جو کہ سب سے آخر میں چھپا ہے اور خاص طور سے اس کے مسائل کی تصحیح کی گئی ہےاس میں بھی مسئلہ کو صحیح طور پر لکھ دیا ہے، اور مولانا اشرف علی صاحب مرحوم نے اس کی عبارت بدل دی ہے۔ فقط و اللہ اعلم

(باب الطلاق الصریح، ج:12،ص:349، 350،ط:ادارہ الفاروق کراچی)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501100600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں