بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 ذو القعدة 1446ھ 13 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

اپنی بیوی کوبطورِاستعمال زیوردینے کا حکم


سوال

میری شادی کوگیارہ سال ہوئے،میں نےاپنی بیوی کواب فارغ کردیاہے،اب پوچھنایہ ہےکہ ان کوجوزیورات وغیرہ جومہرکےعلاوہ،  میں نےاستعمال کے لیے وقتاًفوقتاً دیےتھےان کاکیاحکم ہے؟

واضح رہےکہ یہ زیورمیں نےکبھی ان کی ملکیت میں نہیں دیے، بلکہ میرےپاس رہے، زکاۃ میں اداکرتارہا، جب شادی وغیرہ میں جانا پڑتاتو میں ان کو دیتا پھر واپس  اپنےپاس رکھ لیتا،جس دن طلاق ہوئی اس وقت بھی زیوروہ بھانجی کی شادی کے لیے لےکر گئی تھی توطلاق کےبعدزیورات ان کے ساتھ  رہ گئے،اب اس کےگھروالےکہتےہیں کہ:" یہ تحفہ ہےاس کوہم نہیں دیں گے۔"

اسی طرح اس کامہرجونقدرقم تھی ابھی تک میں نےروکاہواہے،دینےکومیں تیارہوں،لیکن ابھی نہیں دیاہے،اس کاکیاحکم ہے؟اس کوروکنا،نہ دیناشرعاًکیساہے؟

جواب

بتقدیرِ صحتِ واقعہ اگرآپ نےاپنی سابقہ بیوی کواپنےزیورات بطورِتحفہ یابطورِحقِ مہرکے نہیں دیےتھے، بلکہ بطورِعاریت یعنی صرف استعمال کےلیے دیےتھےتووہ زیورات آپ ہی کی ملکیت ہیں، اس میں مطلقہ کاکوئی حق نہیں ہےاورنہ ہی مطلقہ کےگھروالوں کایہ کہنادرست ہےکہ:"یہ تحفہ ہے،اس کوہم نہیں دیں گے۔" البتہ اگرفریقین باہمی رضامندی سےیہ طےکرلیں کہ مذکورہ زیورات میں سےمطلقہ اپناحقِ مہر بقدرِ مہر لے لے اور باقی  زیورات سابقہ شوہر کو لوٹا دےتو اس سےدونوں کاذمہ فارغ ہوجائےگا،بصورتِ دیگرمطلقہ اوراس کےگھروالوں پرلازم ہےکہ آپ کےزیورات واپس کردیں اورآپ پرلازم ہےکہ اپنی سابقہ بیوی کاحق ِمہرحسبِ وعدہ  نقدی اداکردیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما صفة الحكم فهي أن الملك الثابت للمستعير ملك غير لازم؛ لأنه ملك لا يقابله عوض، فلا يكون لازما...فكان للمعير أن يرجع في العارية...وأما بيان حال المستعار: فحاله أنه أمانة في يد المستعير...وأما بيان ما يوجب تغير حالها فالذي يغير حال المستعار من الأمانة إلى الضمان، ما هو المغير حال الوديعة، وهو الإتلاف حقيقة أو معنى بالمنع بعد الطلب...حتى لو حبس العارية بعد انقضاء المدة أو بعد الطلب قبل انقضاء المدة يضمن؛ لأنه واجب الرد في هاتين الحالتين، لقوله عليه الصلاة والسلام: «العارية مؤداة» وقوله عليه الصلاة والسلام: «على اليد ما أخذت حتى ترده» ولأن حكم العقد انتهى بانقضاء المدة أو الطلب، فصارت العين في يده كالمغصوب، والمغصوب مضمون الرد حال قيامه، ومضمون القيمة حال هلاكه".

(كتاب العارية،فصل في صفة الحكم في الإعارة،ج:6،ص:216-218،ط:مطبعة الجماليةبمصر)

البحرالرائق میں ہے:

"ومن مسائل المقاصات وإن لم تكن من الصرف ما في المنتقى له وديعة وللمودع على صاحبها دين من جنسها لم تصر قصاصا بالدين قبل الاتفاق عليه...وحكم المغصوب كالوديعة".

(كتاب الصرف،بيع درهمين وديناربدرهم ودينارين،ج:6،ص:217،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوہ ہندیہ میں ہے:

"وإذا طلب المعير العارية فمنعها المستعير عنه فهو ضامن".

(كتاب العارية،الباب السابع في استردادالعارية،ج:4،ص:371،ط:المطبعة الكبري الأميريةببولاق)

وفيه أيضاّ:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع".

(كتاب النكاح،الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر،ج:1،ص:303،ط:المطبعة الكبري الأميرية ببولاق)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"لو استعارت حليا على أن تلبسه في عرس فلان لزم إعادته ‌في ‌ختام ‌ذلك ‌العرس...إذا استعير شيء للاستعمال في عمل مخصوص فمتى انتهى ذلك العمل بقيت العارية في يد المستعير أمانة كالوديعة وحينئذ ليس له أن يستعملها ولا أن يمسكها زيادة عن المكث المعتاد".

(الباب الثالث في العارية،الفصل الثاني في بيان أحكام العارية،ص:159،ط:كارخانه تجارتِ كتب ،آرام باغ، كراتشي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں