بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی بیوی کو لڑائی میں کہنا کہ چلی جاؤ


سوال

میرے اور میری اہلیہ کے درمیان کافی لڑائیاں ہوتی ہیں اور زیادہ تر لڑائی کے دوران اہلیہ کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ چھوڑدو،  مجھے طلاق دیدو، جس میں ہمیشہ میرا اس طرح کا جواب ہوتا ہے کہ "ٹھیک ہے اپنے والدین کے گھر چلی جاؤ اور اُن سے مشورہ کرلو اگر ان کا بھی یہی فیصلہ ہوتو مجھے کاغذات بھیج دینا میں دستخط کر دوں گا، لیکن میں خود سے طلاق نہیں دوں گا، تم کاغذات بھیج دوگی تو میں دستخط کردوں گا'،میں نے ہمیشہ اسی طرح کے الفاظ کا استعمال کیا ہے تاکہ خدانخواستہ اگر میری نیت ہو بھی تو میرے الفاظ اس کی نفی کردیں، لیکن الحمدللہ کبھی اس بات کو عملی جامہ نہیں پہنایا، ایک ہفتہ قبل ہماری دوبارہ لڑائی ہوئی جس میں طلاق کا موضوع نہیں تھا، مگر اس کا مطالبہ تھا کہ تم اپنی بہن کے گھر نہیں جایا کرو، میں نے اس کو بولا میں جاؤں گا ،وہ میرا خون ہے، تم تو مجھے چھوڑ سکتی ہو آرام سے، کیوں کے تمھارا ہر وقت کا مطالبہ ہوتا ہے طلاق کا، میں اپنی بہن کو کیوں چھوڑوں تمہاری وجہ سے، جس پر اُس نے بولا تو چھوڑدو مجھے، میں نے کہا ٹھیک ہے چلی جاؤ، پھر اُس نے کہا بچوں کو لےکر جاؤں گی ، میں نے کہا ٹھیک ہے کاغذات بھجوا دینا میں دستخط کردوں گا، اس کے بعد نہ وہ گئی نہ میں نے اسے کچھ اور کہا، میں نے اس بار اپنے وہ الفاظ نہیں دہرائے جو میں اپنی نیت کی نفی کے لیے ہر دفعہ بولتا تھا، تو اسی وجہ سے مجھے اپنی نیت کا کچھ اعتبار نہیں ہو پارہا ،میں اپنی نیت کا تعین نہیں کر پارہا کہ ایسا بولتے وقت میری نیت کیا تھی، کیا طلاق واقع ہوئی ہے؟ يا نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو کیا اقدام کرنے چاہییں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب آپ سے آپ کی بیوی نے کہا کہ مجھے چھوڑدواور اس کے جواب میں آپ نے کہا کہ ٹھیک ہے چلی جاؤتو مذکورہ الفاظ طلاق کے کنائی الفاظ ہیں ،اگر آپ کی اس جملےسے طلاق کی نیت تھی تو آپ کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر  نکاح ختم ہوگیا،اس کے بعد  اگر سائل اور اس کی بیوی  باہمی رضامند سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں توگواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے ، آئندہ کے لیے سائل کے پاس   دو طلاقوں کااختیار باقی ہوگا۔

اور اگر آپ کا ان جملےسے طلاق کی نیت نہیں تھی تواس جملے سے  کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

البتہ اگر نیت میں شک ہو اور غالب گمان ہو کہ مذکورہ الفاظ اداکرتے وقت طلاق کی نیت تھی تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور اگر غالب گمان ہو کہ نیت نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

نیز اگر نیت میں تردد ہو اور نیت کا تعین نہیں کرپارہا تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: اخرجي اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك، قيد باقتصاره على اذهبي؛ لأنه لو قال: اذهبي فبيعي ثوبك لا يقع، وإن نوى، ولو قال: اذهبي إلى جهنم يقع إن نوى،كذا في الخلاصة، ولو قال: اذهبي فتزوجي، وقال: لم أنو الطلاق لم يقع شيء؛ لأن معناه تزوجي إن أمكنك وحل لك، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات في الطلاق، 3/ 326، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق...(وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين  الخ."

(کتاب الطلاق،الباب الثانی فی ایقاع الطلاق،الفصل الخامس فی الکنایات فی الطلاق،ج:1،ص:375،ط:رشیدیہ)

الاشباہ والنظائر میں ہے :

"ومنها:شك هل طلق أم لا لم يقع. شك أنه طلق واحدۃ أو أکثر،بنیٰ علی الأقل کما ذکرہ الإسبیجابي إلا أن یستیقن بالأکثر، أو یکون أکبر ظنه علی خلافه."

(قاعدۃ من شک ھل فعل ام لا،ص:۵۲، ط:دار الکتب العلمیۃ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فإن الشك والاحتمال لا يوجب الحكم بالنقض، إذ ‌اليقين لا يزول بالشك نعم إذا علم بإخبار الأطباء أو بعلامات تغلب ظن المبتلى، يجب."

(كتاب الطهارة، ج: 1، ص: 148، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں