بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی بات کی وضاحت کے لیے قرآن سے مثال دینے کا حکم


سوال

اگرکوئی فرد یا میں کسی شخص سے یہ کہوں کہ میں تمہارے ساتھ سودی کاروبارنہیں کرونگا، اوریہ مثال پیش کروں کہ قرآن میں جس طرح اللہ پاک نے فر ما یا ہے کہ "اے ایمان والو! نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ"[النساء آیت ۴۳] اسی طرح میں کہتا ہوں کہ اگر سودی کاروبار کرنا ہے تو میرے پاس مت آؤ۔ [یعنی جس طرح اللہ نے نماز کے لئے نشہ نہ کرنے کی شرط عائد کی میں بھی کاروبارکرنے کے  لیے سود کے نہ ہو نے کی شرط عائد کروں۔] اوپر دی گئ مثال سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ مثال غلط ہے اس مثال میں، بندے کو اللہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، یا یہ کہ یہ مثال دینے والا اللہ کی بے ادبی کا مرتکب ہوا ہے، [اگر چہ کہ یہ مثال دینے والا شخص وضاحت کردے کہ یہ مثال دینے کا مقصد کسی کو اللہ سے تشبیہ دینا نہیں تھا۔] میراسوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس مثال میں بندے کو اللہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے؟[اگر چہ کہ یہ مثال دینے والا شخص وضاحت بھی کردے کہ یہ مثال دینے کا مقصد کسی کو اللہ سے تشبیہ دینا نہیں تھا۔] اور کیا مثال دینے والا واقعی کسی بھی درجے میں اللہ کی بے ادبی کا مرتکب ہوا ہے؟ برائے مہربانی وضا حت فرمادیں۔

جواب

یہ بات درست ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کے ذات وصفات کے ساتھ کسی طرح تشبیہ دینا درست نہیں ہے، تاہم صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے کسی شخص کو اپنے ساتھ سودی کاروبار   سے منع کرنے کے لئے سوال میں ذکر کردہ مثال دی اور یہ وضاحت بھی کرلی کہ مذکورہ مثال سے محض وضاحت مقصود ہے، کسی چیز میں تشبیہ دینا مقصود نہیں ہے، تو محض اپنی بات کو سمجھانے کے لئے قرآنی مثال دینے  سے سائل اللہ تعالی کی بے ادبی کا مرتکب نہیں ہوا ۔باقی اپنی گفتگو  میں احتیاط کرنا لازم ہے ،بے احتیاطی کرنے سے اندیشہ ہے کہ  کسی بے ادبی میں مبتلا  نہ ہوجائے ۔

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي ) میں ہے:

"(ولله المثل الأعلى) أي الوصف الأعلى من الإخلاص والتوحيد، قاله قتادة. وقيل: أي الصفة العليا بأنه خالق رازق قادر ومجاز. وقال ابن عباس:" مثل السوء" النار، و" المثل الأعلى " شهادة أن لا إله إلا الله. و قيل:" ليس كمثله شيء  ". وقيل:" ولله المثل الأعلى " كقوله:" الله نور السماوات والأرض مثل نوره ". فإن قيل: كيف أضاف المثل هنا إلى نفسه وقد قال:" فلا تضربوا لله الأمثال " فالجواب أن قوله:" فلا تضربوا لله الأمثال" أي الأمثال التي توجب الأشباه والنقائص، أي لا تضربوا لله مثلا يقتضي نقصا وتشبيها بالخلق. والمثل الأعلى وصفه بما لا شبيه له ولا نظير، جل وتعالى عما يقول الظالمون والجاحدون علوا كبيرا".

(سورۃ النحل، رقم الآیۃ:61، ج:10، ص:119، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101459

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں