بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

اپنی زمین کی پیداوار کو ذخیرہ کرنا احتکار کے حکم میں نہیں ہے


سوال

کیا کسان اپنی زمین کی پیداوار کو ذخیرہ کر سکتا ہے؟ تاکہ قیمت بڑھ جانے کی صورت میں  زیادہ منافع کما سکے ،کیا ایسا کرنے سے احتکار کے حکم میں آتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کوئی شخص یا تاجرغلّہ وغیرہ اس نیت سے خریدے اور اپنے پاس جمع کرکے رکھے ؛تاکہ جب گراں بازاری  کا وقت آئے اور مارکیٹ میں اس کی کمی واقع ہواور خریداروضرورت مندلوگ بوجۂ مجبوری مہنگے داموں پر خریدنے پر مجبورہوں، تو ایسی حالت میں  اسے مہنگے دام پر بیچنے کو شرعاً احتکار کہاجاتاہے۔

ایسے اموال کے ساتھ چونکہ عامۃ الناس کا حق متعلق ہوتاہے،اس لیے شریعتِ مطہرہ نے عام لوگوں کا لحاظ کرتے ہوئے اسے ممنوع قراردیاہے،البتہ کاشت کارجو اپنی زمینی پیداوار کو جمع کرتے ہیں، شرعاًچونکہ اس کے ساتھ عوام کا حق متعلق نہیں ہوتا؛ لہذا کاشت کارکا اپنی زمین کی پیداوارکو جمع کرنااحتکارکے حکم میں نہیں آتا، تاہم اگر عامۃ الناس مجبوراور ضرورت مندہوں ،تو ایسی حالت میں کاشتکارکےلیے اپنی زمینی پیداوارجمع کرنا اور مہنگے داموں بکنے کا انتظا رکرنا باعثِ گناہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا يكون محتكرا بحبس غلة أرضه) بلا خلاف (ومجلوبه من بلد آخر) خلافا للثاني وعند محمد إن كان يجلب منه عادة كره وهو المختار.''

وفی الرد تحتہ:

"(قوله ولا يكون محتكرا إلخ) لأنه خالص حقه لم يتعلق به حق العامة، ألا ترى أن له أن لا يزرع فكذا له أن لا يبيع هداية قال طوالظاهر أن المراد أنه لا يأثم إثم المحتكر وإن أثم بانتظار الغلاء أو القحط لنية السوء للمسلمين اهـ وهل يجبر على بيعه الظاهر نعم إن اضطر الناس إليه تأمل.''

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج:6،ص:399،ط:سعید)

فتح القدیرللکمال ابن الہمام میں ہے:

"قال (ومن احتكر غلة ضيعته أو ما جلبه من بلد آخر فليس بمحتكر) أما الأول فلأنه خالص حقه ‌لم ‌يتعلق ‌به ‌حق ‌العامة؛ ألا ترى أن له أن لا يزرع فكذلك له أن لا يبيع. وأما .''

(کتاب الکراہیۃ، فصل فی البیع،ج:10،ص:58،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"رہاکاشتکارتووہ اپنی زمین کی پیداوارکاحق دارہے،اس میں عوام کا حق متعلق نہیں ہے،جس طرح کاشتکارکو اپنی زمین کی کاشت کرنے اور نہ کرنے کا اختیارہوتاہے،ٹھیک اسی طرح اس کی پیداوارکو بیچنے نہ بیچنے کابھی اس کو اختیاروحق حاصل ہے،نیز کاشت کارعوام کی حق تلفی نہیں کرتااس لیے اس کو محتکرنہیں کہاجاتا،مگر یہ بھی یادرہے کہ بدنیتی اور بےرحمی اور لوگوں کی تکلیف پر نظرنہ کرنے کاگناہ اس کو بھی ہوتاہےاور عوام کی ضرورت کے لحاظ سے اگر گورنمنٹ اس کو ضرورت سے زائد غلہ کی فروخت کرنے پر مجبورکرے،تو گنجائش ہے."

(متفرقات فی البیوع،ج:9،ص:223،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم



فتوی نمبر : 144407100536

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں