بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحب استطاعت شخص کا اپنے نام پر قربانی کرنے کے بجائے والد مرحوم کے نام قربانی کرنا


سوال

ایک شخص صاحبِ استطاعت ہے اور وہ اپنے نام کی قربانی کرنے کی بجائے مرحوم والد کی طرف سے کردے تو آیا یہ قربانی درست ہے یا اپنے نام کا حصہ بھی لازمی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جس شخص کے ذمہ قربانی کرنا واجب ہو اسے چاہیے پہلے اپنی واجب قربانی کرے، اس کے بعد اگر استطاعت ہو اور   والدِ مرحوم کے ایصالِ ثواب کی غرض سے قربانی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

تاہم اگر والد مرحوم کی طرف سے قربانی کی اور اس میں  اپنی واجب قربانی کی نیت نہیں کی تو  بھی قربانی کرنے والے کی طرف سے ہی  یہ واجب قربانی شمار ہو گی، والد مرحوم کو محض ثواب حاصل ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"قوله: وعن میت أي لو ضحی عن میت وارثه بأمره ألزمه بالتصدیق بها وعدم الأکل منها، وإن تبرع بها عنه له الأکل؛ لأنه یقع علی ملك الذابح والثواب للمیت؛ ولهذا لو کان علی الذابح واحدة سقطت عنه أضحیته، کما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لکن في سقوط الأضحیة عنه، تأمل. أقول: صرح في فتح القدیر في الحج عن الغیر بلا أمر أنه یقع عن الفاعل فیسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب، فراجعه".

(كتاب الاضحية ، فروع لون أضحيته...،6/ 335،ط: سعید)

 فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه".

(كتاب الأضحية ، فصل في ما يجوز فى الضحايا..3/ 239، ط: دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں