میری ملکیت میں ایک مکان ہے، میں اپنی اولادکو یہ وصیت کرنا چاہتا ہوں کہ میرے انتقال کے بعد اس مکان کو تمام اولاد کی رضامندی سے فروخت کرکے جو رقم حاصل ہوگی اس میں سے دس فیصد میرے اور میری مرحومہ اہلیہ کے لیے صدقہ جاریہ کردیا جائے،اس رقم کو مسجد اور مدرسہ میں دیا جائے، اس کے بعد باقی رقم کو قرآن وسنت کی روشنی میں تقسیم کردیا جائے، میری اولاد میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، ان کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم کر دیا جائے، یہ مذکورہ وصیت شرعاً درست ہے؟ نیز مرنے کی صورت میں وراثت کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
وضاحت:سائل کے والدین کا انتقال سائل کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا۔
1۔صورتِ مسئولہ میں سائل اگر اپنے مال کا دس فیصد اپنے اور اپنے مرحومہ اہلیہ کے لیے بطور صدقہ جاریہ وصیت کرتا ہے تو شرعاً یہ وصیت معتبر ہے اور درست هے۔
2۔چوں کہ سائل حیات ہے،وراثت کی تقسیم وفات کے بعد ہوتی ہے،انتقال كي صورت ميں سائل کی وراثت سائل کے زندہ ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگی۔
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"الإيصاء في الشرع تمليك مضاف إلى ما بعد الموت يعني بطريق التبرع سواء كان عينا أو منفعة، كذا في التبيين أما ركنها فقوله أوصيت بكذا لفلان وأوصيت إلى فلان، كذا في محيط السرخسي والوصية مستحبة هذا إذا لم يكن عليه حق مستحق لله تعالى."
(كتاب الوصايا،ج:6،ص:90،ط:رشيدية)
وفیہ ایضاً:
"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية."
(كتاب الوصايا،ج:6،ص:90،ط:رشيدية)
الفقه السلامي وادلته ميں ہے:
"التركة: ما يتركه الميت مما كان يملكه من الأموال النقدية والعينية والحقوق. فلا يدخل في التركة الأمانات ونحوها مما لم يكن يملكه."
(القسم السادس: الأحوال الشخصية،الباب السادس: الميراث،مصطلحاته،ج:10،ص:7701،ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403101927
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن