بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے غلام کے ساتھ ہم بستر ہونا جائز نہیں ہے


سوال

 اسلام میں صرف اپنی بیوی کے ساتھ جماع کو جائز قرار دیا ہے یا لونڈی کے ساتھ بھی؟ اور میرے خیال میں لونڈی کے ساتھ جماع کرنا تو گناہ ہوا نا، اگر مرد کے لیے کسی لونڈی کے ساتھ جماع کرنا جائز ہے تو جو عورت لونڈی نہیں ہو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا وہ بھی کسی غلام کے  ساتھ  جماع کر سکتی ہے ؟

جواب

شریعت میں مرد کے لیے جس طرح اپنی منکوحہ،بیوی کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنا جائز ہے،اسی طرح  اپنی مملوکہ  باندی کے  ساتھ  بھی جسمانی تعلقات قائم کرنا جائز ہے،یہ خیال غلط ہے کہ اسلام میں اپنی باندی کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنا گناہ ہے،لیکن اس کے برخلاف ایک آزاد عورت کے لیے اپنے غلام سے  جسمانی  تعلقات  قائم  کرنے کی شرعًا اجازت  نہیں ہے۔ اسلام میں  مرد وعورت کے احکام علیحدہ علیحدہ ہیں،تقابلی نظریہ کی بنیاد پر ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا غلط ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک عورت نے اپنے غلام کے ساتھ تعلقات قائم کیے اوراس نے یہی استدلال کیا کہ یہ میرا غلام ہے اور میں اس کو اپنے لیے حلال سمجھتی ہوں جس طرح ایک مرد کے لیے اس کی اپنی باندی اس کے لیےحلال ہوتی ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو رجم کرنا چاہا ،پھر دیگر صحابہ کرام  سے اس بارے میں مشورہ کیا،صحابہ  کرام نے یہ رائے دی کہ چونکہ اس عورت نے قرآن مجید کی آیت کی  تاویل کی ہے،اگر چہ غلط تاویل کی ہے اس لیے اس کو رجم نہ کریں،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت سے حد تو ساقط کردی لیکن  بطور سزا اس عورت  کو کسی بھی مرد سے نکاح  کرنے سے روک دیا گیااور اس غلام کو بھی آئندہ اس عورت کے قریب جانے سے منع فرمایا۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ  ہرباندی سے جماع کرنا جائز نہیں ہے، صرف اپنی مملوکہ باندی سے  جماع جائز ہے، بشرط یہ کہ باندی  مشرکہ یا دھریہ نہ ہو، اور کسی اور کے نکاح میں بھی نہ ہو، اگر کسی کی زرخرید باندی  کسی کے نکاح میں ہو تو آقا کے لیے اس سے قربت کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح اگر باندی بت پرست، آتش پرست یا دھریہ ہو تو اس سے بھی قربت کی اجازت نہیں ہے۔

تفسیر القرطبی میں ہے:

"الرابعة- قوله تعالى: (والذين هم لفروجهم حافظون) قال ابن العربي:" من غريب القرآن أن هذه الآيات العشر عامة في الرجال والنساء، كسائر ألفاظ القرآن التي هي محتملة لهم فإنها عامة فيهم، إلا قوله" والذين هم لفروجهم حافظون" فإنما خاطب بها الرجال خاصة دون الزوجات، بدليل قوله:" إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم". وإنما عرف حفظ المرأة فرجها من أدلة أخرى كآيات الإحصان عموما وخصوصا وغير ذلك من الأدلة". قلت: وعلى هذا التأويل في الآية فلا يحل لامرأة أن يطأها من تملكه إجماعا من العلماء، لأنها غير داخلة في الآية، ولكنها لو أعتقته بعد ملكها له جاز له أن يتزوجها كما يجوز لغيره عند الجمهور."

(سورۃ المومنون،ج12،ص105،ط؛دار الکتب المصریۃ)

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عن قتادة قال: تسرت امرأة غلامها، فذكر ذلك لعمر، فسألها: ما حملك على ذلك؟ فقالت: كنت أراه يحل لي بملك يميني، كما تحل للرجل المرأة بملك اليمين. فاستشار عمر في رجمها أصحاب رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-، فقالوا: تأولت كتاب اللَّه عز وجل على غير تأويله، لا رجم عليها، فقال عمر: لا جرم، واللَّه لا أحلك لحر بعده أبدًا -عاقبها بذلك- ودرأ الحد عنها، وأمر العبد ألا يقربها ."

(‌‌باب: العبد ينكح سيدته،ج7،ص209،ط؛المجلس العلمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101763

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں