بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے گاؤں سے اہل وعیال سمیت منتقل ہوجائے تو قصر کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص کسی جگہ سے دوسری جگہ اپنی فیملی سمیت منتقل ہو جائے اور کبھی 12 دن، کبھی 15،  کبھی 18 دن  بعد اپنے اصلی گاؤں بھی آتا جاتا رہے تو اس کی سفری نماز کے کیا احکام ہیں؟

جواب

اگر کوئی آدمی اپنےاہل وعیال سمیت اپنے آبائی وطن کو مستقل طور پر  چھوڑ کردوسرے مقام پر مستقل رہائش پذیر ہوجائےاور آئندہ پہلے والے وطن اصلی میں مستقل رہائش اختیار کرنے کاکوئی ارادہ نہ ہو(یعنی دوسری جگہ کو وطن اصلی بنالے) تو اس کا آبائی وطن اس  کا وطن اصلی نہیں رہتا،  بلکہ اب اس کا وطن اصلی  وہی ہوگا، جہاں پر اس نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہائش اختیار کی ہے، لہٰذا اگر یہی شخص کبھی کبھی آبائی وطن جاتاہو اور وہاں پر پندرہ دن سے کم رہنے کا ارادہ ہو تو وہاں قصر کرے گا اتمام نہیں کرےگا،لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے آبائی وطن  کو چھوڑدیاہے اور واپس آکر آباد ہونے کا ارادہ نہیں  ہے اور  اپنے اہل وعیال کے ساتھ  کہیں اور مستقل طور پر رہائش اختیار کرلی ، تو   جب سائل   کسی موقع پر  آبائی وطن  جائے گااور پندرہ دن سے کم رہنے کا ارادہ ہو گا،تو   قصر کرے گا ۔

الدر المختار میں ہے:

"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته.

وفی الرد:

"(قوله أو تأهله)۔۔۔ولو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل لا يبقى وطنا له إذ المعتبر الأهل دون الدار كما لو تأهل ببلدة واستقرت سكنا له وليس له فيها دار وقيل تبقى. اهـ. (قوله أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل، فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله شرح المنية."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر:ج،2:ص،131:ط، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں