بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے علاج کے لیے رکھے گئے مال پر قربانی کا حکم


سوال

اگر کسی شخص نے اپنا مال علاج کے لیے رکھا ہوا ہے ، تو کیا اس پر قربانی واجب ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر وہ شخص  فی الحال بیمار ہواور  اسےفوری  علاج کی ضرورت ہو اور یہ رقم ایامِ قربانی سے پہلے علاج معالجہ  میں خرچ کرنی ہو اور  مذکورہ شخص کے پاس   اس مال کے سوا اور کوئی مال نصاب کے بقدر  نہ ہو، تو اس صورت میں اس  پر قربانی واجب نہیں ہوگی،لیکن  اگر مذکورہ شخص  فی الحال بیمار نہ ہو،مستقبل کی بیماری کے اندیشہ کی بنیاد پر یہ رقم محفوظ رکھی ہو اور یہ رقم نصاب کے بقدر بھی ہو یعنی اتنی ہو جس سے صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے یا اس کے علاوہ دیگر ضرورت سے زائد اموال کے ساتھ مل کر نصاب کے بقدر بنتی  ہو تو اس  پر  قربانی واجب ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين، فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعا عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك، فإذا كان له دراهم مستحقة بصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة، كما أن الماء المستحق بصرفه إلى العطش كان كالمعدوم وجاز عنده التيمم. اهـ ."

(كتاب الزكاة،262/2، ط: سعيد) 

وفيه أيضا:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر.

(قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية."

(كتاب الأضحية،312/6،ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100673

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں