بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے دوست کے ساتھ لیٹنا، اور اس کی شرم گاہ کو چھونے کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ اگر دو مرد ہو، اور ان کی آپس میں بڑی محبت ہو،وہ دونوں ساتھ لیٹے ہوئے ہوں،اور ان میں سے ایک دوسرے کی شرم گاہ پر ہاتھ لگادے،محبت زیادہ ہونے کی وجہ سے،تو یہ گنہگار ہوگا یا نہیں ؟

جواب

ایک مرد کا دوسرے مرد سے اس طرح کی محبت کرنا جو اس قبیح فعل کے کرنے تک آمادہ کردے،سخت حرام و ناجائز ہے،اور اس فعل کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے  سخت گنہگار ہے،مرد کی شرم گاہ کو چھونا تو درکنار،اس قسم کا تعلق رکھنا ،اور ساتھ لیٹنا بھی ایسے لوگوں کے لیے جائز نہیں ،کیوں کہ اس میں قوی اندیشہ ہے کہ وہ اس ناجائز فعل سے مزید آگے بڑھ کر بدکاری میں مبتلا ہوجائیں۔

نیزکسی نیک انسان سے محبت اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے،جس سے انسان کی دنیاوی اصلاح و تربیت بھی ہو،اور آخرت کے اعتبار سے بھی اجر و ثواب کا ذریعہ بنے۔اس کے علاوہ عام حالات میں کسی دوست یا کسی مردسے اپنی شہوت پوری کرنے کے لیے،یا اپنی تسکین کے لیے اس قسم کے تعلقات رکھنا سخت گناہ کا عمل ہے،اس کے بارے میں شریعت مطہرہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔اگر کسی شخص سے ایسا قبیح اور گناہ کا  عمل سرزد ہوجائے،تو اس کو چاہیے کہ سچے دِل سے توبہ و استغفار کرے،یعنی جو غلطی ہوگئی ہے،اس پر سچے دِل سے ندامت ہو،آئیندہ نہ کرنے کا پکا عزم ہو،نیز اس قسم کے تعلق اور ایسی ناجائز محبت سے آئندہ اجتناب کرے،اور جہاں جس مرد کے ساتھ اس طرح کے تعلق ہونے کا اندیشہ ہو،آئندہ اس سے دور رہے،تاکہ اخروی گناہ اور عذاب سے بچ سکے۔

تفسير القرطبي  میں ہے:

"ولوطا إذ قال لقومه أتأتون الفاحشة ما سبقكم بها من أحد من العالمين (80).

فيه أربع مسائل... الثانية- قوله تعالى: (أتأتون الفاحشة) يعني إتيان الذكور. ذكرها الله باسم الفاحشة ليبين أنها زنى، كما قال الله تعالى:" ولا تقربوا الزنى إنه كان فاحشة «2» ". واختلف العلماء فيما يجب على من فعل ذلك بعد إجماعهم على تحريمه، فقال مالك: يرجم، أحصن أو لم يحصن. وكذلك يرجم المفعول به إن كان محتلما. وروي عنه أيضا: يرجم إن كان محصنا، ويحبس ويؤدب إن كان غير محصن. وهو مذهب عطاء والنخعي وابن المسيب وغيرهم. وقال أبو حنيفة: يعزر المحصن وغيره، وروي عن مالك. وقال الشافعي: يحد حد الزنى قياسا عليه. احتج مالك بقول تعالى:" وأمطرنا عليهم حجارة من سجيل". فكان ذلك عقوبة لهم وجزاء على فعلهم. فإن قيل: لا حجة فيها لوجهين، أحدهما- أن قوم لوط إنما عوقبوا على الكفر والتكذيب كسائر الأمم. الثاني- أن صغيرهم وكبيرهم دخل فيها، فدل على خروجها من باب الحدود. قيل: أما الأول فغلط، فإن الله سبحانه أخبر عنهم أنهم كانوا على معاصي فأخذهم بها، منها هذه. وأما الثاني فكان منهم فاعل وكان منهم راض، فعوقب الجميع لسكوت الجماهير عليه. وهي حكمة الله وسنته في عباده."

(سورہ أعراف ج آیت نمبر:80، ج:7، ص:242، ط:دار الکتب المصریة)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن ابن عباس وأبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ملعون من عمل عمل قوم لوط» . رواه رزين وفي رواية له عن ابن عباس أن عليا أحرقهما وأبا بكر هدم عليهما حائطا وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا ينظر الله عز وجل إلى رجل أتى رجلا أو امرأة في دبرها» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب.

(«ملعون من عمل عمل قوم لوط» . رواه رزين) وفي الجامع الصغير: «ملعون من سب أباه ملعون من سب أمه، ملعون من ذبح لغير الله، ملعون من غير تخوم الأرض، ملعون من كمه أعمى عن طريق، ملعون من وقع على بهيمة، ملعون من عمل بعمل قوم لوط» . رواه أحمد بسند حسن عن ابن عباس."

(کتاب الحدود ،ج:4، ص:2351، ط:دار الفکر)

در مختار  میں ہے:

"وکرہ تحریماً تقبیل فم الرجل أو یدہ أو شیئاً منه ، وکذا تقبیل المرأة المرأة عند لقاء أو وداع قنیة وهذا لو عن شهوة وأما علی وجه البر فجائز عند الکل."

(كتاب الحظر والإباحة، باب الإستبراء وغيره، ص:658، ط:دار الكتب العلمية۔بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں