مرد کا غصے کے وقت بیوی کو گالی کے طور پر ”طلاق والی“ کہنا جیسے پنجابی میں لفظ ”طلاقی ہوئی“ گالی کے طور پر بولتے ہیں، کیا اس سے طلاق واقع ہو جاتی یا نہیں؟ جب کہ کہا گالی کے طور پر ہے طلاق کی نیت سے نہیں۔
صورت مسئولہ میں شوہرنے اپنی جس بیوی کوطلاق والی کہاہو،اگروہ پہلے سے طلاق یافتہ نہ ہو ،تواس صورت میں مذکورہ الفاظ ایک مرتبہ کہنے سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے،دومرتبہ کہا ہو تو دو طلاق رجعی واقع ہوں گی،تین مرتبہ کہا ہو،تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی،اوربیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی،شوہر کےلئے رجوع کرنایا دوبارہ نکاح کرنا جائزنہیں ہوگا،جب کہ پہلی دو صورتوں میں عدت کے دوران شوہر کےلئے بیوی سے رجوع کرنا جائز ہوگا، اور رجوع نہ کرنے کی صورت میں عدت کے بعد تجدید نکاح جائز ہوگا۔
مذکورہ الفاظ کے بارے شوہر کا یہ کہنا کہ میں نے گالی دینے کی نیت سے کہاتھا شرعاًمعتبر نہیں ہوگا۔
فتاوی مفتی محمود میں ہے:
”سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کے زید نے اپنی بیوی ہندہ سےجھگڑہ کیا ہے، دوران جھگڑا اس کو گالی گلوچ دے رہا ہے، جیساکہ زید ہندہ کوتی سوانی وغیرہ کہہ رہا ہے، بطور گالی اس کو دھرطلاقی ہوئی کہہ دیتا ہے، اور اس کو وہم وگمان بھی نہیں طلاق دینے کا، کیا اس لفظ سے طلاق ہوجاتی ہےیانہیں؟
زید اپنی بیوی کوآٹھ نوبار یہ مذکورہ لفظ طلاقی ہوئی کہتاہے،اس تعداد میں کونسی طلاق واقع ہوگی یاکچھ بھی نہ ہوگا؟
جواب:صورت مسئولہ میں اگر اس عورت کا زید سے پہلے کوئی اور خاوند نہ تھا، جس نے عورت کو طلاق دی ہو، تو پھراس صورت میں زید کا اپنی منکوحہ کو یہ کہنا دھرطلاقئی اس سے طلاق واقع ہوتی ہے، اور چوں کہ تین بارسےزیادہ یہ الفاظ کہہ چکاہے،اس لیے اس کی منکوحہ مطلاقہ مغلظہ ہوجائیگی،اب بغیر حلالہ کےدوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا۔
(فتاوی مفتی محمود، ج:6، ص:460، ط:جمعیۃ پبلیکیشنز)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل قال لامرأته يا مطلقة إن لم يكن لها زوج قبل أو كان لها زوج لكن مات ذلك الزوج ولم يطلق وقع الطلاق عليها وإن كان لها زوج قبله وقد كان طلقها ذلك الزوج إن لم ينو بكلامه الإخبار طلقت وإن قال عنيت به الإخبار دين فيما بينه وبين الله تعالى وهل يدين في القضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أنه يدين ولو قال نويت به الشتم دين فيما بينه وبين الله تعالى لا في القضاء ولو قال لها أطلقتك إن نوى به الطلاق يقع وإلا فلا كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق وفيه سبعة فصول، الفصل الأول في الطلاق الصريح ، ج:1، ص:355، ط:دارالفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ومنه أي من الصريح: يا طالق أو يا مطلقة بالتشديد، ولو قال: أردت الشتم لم يصدق قضاء ودين خلاصة، ولو كان لها زوج طلقها قبل فقال: أردت ذلك الطلاق صدق ديانة باتفاق الروايات وقضاء في رواية أبي سليمان، وهو حسن كما في الفتح، وهو الصحيح كما في الخانية."
(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج:3، ص:351، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101787
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن