بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی بیٹی یا ساس کو شہوت سے چھو لیا تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوگی


سوال

1-اگر کسی نے ساس کو شہوت سے چھو لیا تو اس کے بیوی اس پر حرام ہوگی، اس مسئلہ کی قرآن و حدیث سے دلیل بھیج دیں،میں خود حنفی دیوبندی ہو ں لیکن ایک ساتھی نے مجھ کو کہا کہ اس مسئلہ کی دلیل کیا ہے، لہذا آپ دلیل بھیج دیں ؟

2-اور اگر کسی نے اپنی بیٹی کو شہوت سے چھو لیا تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوگی اس مسئلہ کی قرآن و حدیث سے دلیل بھیج دیں ، میں خود حنفی دیوبندی ہو ں لیکن ایک ساتھی نے مجھ کو کہا کہ اس مسئلہ کی دلیل کیا ہے لہذا آپ دلیل بھیج دیں ؟

جواب

انسانوں کے درمیان  تعلقات اور محرم رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ،  ایک  نسب اور خون  کے رشتے، اور دوسرے  سسرالی  رشتے،  اس سسرالی رشتے کو  ”مصاہرت“  کہتے ہیں ، جیسے: سسر، ساس، اور ان کے اصول و فروع، اور بیوی کی بیٹی، شوہر کا بیٹا وغیرہ، ان رشتہ داروں سے حرمت کو”حرمتِ مصاہرت“  کہا جاتا ہے، اسلام نے  نسب اور مصاہرت دونوں قسم کے رشتوں کے احترام کا حکم دیا ہے،

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"{ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا}." [الفرقان: 54]

 ترجمہ:”اللہ وہ ذات ہے  جس نے پانی سے انسان کو بنایا اور پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا“۔

 اور اللہ پاک نے یہ تذکرہ  احسان گنوانے کی جگہ پر  کیا ہے جو ان رشتوں کی عظمت اور قابلِ احترام ہونے کی دلیل ہے۔

          حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا سے بھی ثابت ہوجاتی ہے،یہی احناف ،  حنابلہ،اور ایک روایت کے مطابق امام مالک  کا مسلک ہے اور  احناف  کے نزدیک شرائطِ معتبرہ کے ساتھ دواعی زنا( شہوت کے ساتھ چھونے اور دیکھنے)  سے بھی حرمتِ مصاہرت  ثابت ہوجاتی ہے، یہی مسلک بہت سے  صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  اور کبارِ تابعین رحمہم اللہ   کا ہے،   اور دلائلِ نقلیہ اور عقلیہ سے مؤید ومبرہن اور نہایت  ہی  احوط ہے۔

         لہذااگر   کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرلے ، یا اس سے وطی کرلے خواہ نکاحِ صحیح کے بعد، یا نکاحِ فاسد کے بعد، یا زنا کرے، یا اس عورت کو شہوت کے ساتھ کسی حائل کے بغیر  چھولے یا شہوت کے ساتھ اس کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ کی طرف دیکھ  لے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی اس عورت کے اصول وفروع ، مرد پر حرام ہوجائیں گے اور اس مرد کے اصول وفروع ، عورت پر حرام ہوجائیں گے۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"{وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا}." [النساء: 22]

         ترجمہ:" اور تم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ (دادا یا نانا) نے نکاح کیا ہو، مگر جو بات گزرگئی (گزرگئی) بے شک یہ (عقلاً بھی) بڑی بےحیائی ہے اور نہایت نفرت کی بات ہے۔ اور (شرعاً بھی) بہت برا طریقہ ہے۔" (بیان القرآن)

         اور نکاح سے مراد یہاں وطی یعنی ہم بستری کرنا ہے خواہ وہ  وطی حلال ہو یا حرام ہو،  اس لیے  کہ نکاح کا حقیقی معنی  ”وطی “کا ہے  اور ”عقدِ نکاح “اس کا  مجازی معنی ہے ، لہذا آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جس عورت سے باپ نے وطی کی ہو  بیٹا اس سے نکاح نہیں کرسکتا،۔

جیسا کہ  امام ابوبکر جصاص رازیؒ تحریر فرماتے ہیں:

"فثبت بذلك أن اسم النكاح حقيقة للوطء، مجاز في العقد، فوجب إذا كان هذا على ما وصفنا أن يحمل قوله تعالى: {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء} على الوطء، فاقتضى ذلك تحريم من وطئها أبوه من النساء عليه؛ لأنه لما ثبت أن النكاح اسم للوطء لم يختص ذلك بالمباح منه دون المحظور، كالضرب والقتل والوطء نفسه لايختص عند الإطلاق بالمباح منه". 

(أحكام القرآن للجصاص  ج:3،ص:51سورۂ نساء،آیت:22، ط:داراحیاء التراث العربي)

         اسی طرح ارشادی باری تعالیٰ ہے:

"{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا} ."[الإسراء: 32]

            ترجمہ:" اور زنا کے پاس بھی مت بھٹکو ، بلاشبہ وہ بڑی بےحیائی کی بات ہے اور بری راہ ہے۔ یعنی اس کے مبادی و مقدمات سے بھی بچو۔" (بیان القرآن)

            ابوالحسن الطبری الشافعی(متوفی  504ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زنا اور دواعی زنا  سے منع کیا اور اس کی   وجہ یہ بیان کی کہ یہ ”فاحشۃ“   یعنی بے حیائی ہے، اور جہاں  اپنے باپ کی منکوحہ سے  نکاح کی حرمت بیان کی وہاں بھی یہی وجہ ذکر کی  کہ یہ بے حیائی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں حرمت میں برابر ہیں۔

"قوله تعالى: (وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً) ، الآية/ 32 يدل على تحريم الزنا، وهو الذي تعرى عن نكاح وعن شبهة نكاح. ووصف الله تعالى نكاح امرأة الأب بما وصف الزنا به، فقال تعالى: (وَلا تَنْكِحُوا ما نَكَحَ آباؤُكُمْ مِنَ النِّساءِ إِلَّا ما قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَمَقْتاً وَساءَ سَبِيلًا) وذلك يدل على مساواته في التحريم، وبينا ما يعترض به عليه."

(أحكام القرآن للكيا الهراسي الشافعي،ج:4،ص:258، ط:دارالکتب العلمیہ)

            ابو ہانیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی عورت کی شرم گاہ کو دیکھے اس پر اس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائیں گی۔

مصنف ابن أبي شيبة میں ہے:

''عن أبي هانئ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من نظر إلى فرج امرأة، لم تحل له أمها، ولا ابنتها.''

(کتاب النکاح،  باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، ج:3،ص:480برقم:16235، ط: مكتبة العلوم والحكم المدينة المنورة)

           اسی طرح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ  جو شخص کسی عورت کی شرم گاہ دیکھے اور اسی کی بیٹی کی بھی شرم گاہ دیکھے تو اللہ تعالی اس کی طرف(ناراضگی کی وجہ) سے نہیں دیکھیں گے۔

مصنف ابن أبي شيبة میں ہے:

''عن علقمة، عن عبد الله، قال: لا ينظر الله إلى رجل نظر إلى فرج امرأة وابنتها.''

( کتاب النکاح،  باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته،ج:3،ص480، برقم:16234، ط: مكتبة العلوم والحكم ،المدينة المنورة)

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں زمانہ جاہلیت میں ایک عورت سے زنا کرچکا ہوں، کیا میں اب اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: میں اس کو جائز نہیں سمجھتا اور یہ بھی جائز نہیں  ہے کہ تو ایسی عورت سے نکاح کرے  جس کی بیٹی کے جسم کے ان حصوں کو تو  دیکھ چکا ہے جو حصے تو بیوی کے دیکھے گا۔

مصنف عبد الرزاق الصنعانی میں ہے:

''عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن أم الحكم، أنه قال: قال رجل: يا رسول الله، إني زنيت بامرأة في الجاهلية وابنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا أرى ذلك، ولا يصلح ذلك: أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها على ما اطلعت عليه منها ."

(كتاب الطلاق، باب الرجل یزنی بأخت امرأتہ،ج:ج:7،ص:201 برقم:12784، ط:المكتب الإسلامي ،بيروت)

ایک شخص نے اپنی ساس  سے زنا کیا تو اس کے بارے میں  عمران بن حصین ؓ  نے یہ فرمایا کہ  اس کی بیوی اس پر حرام  ہوگئی ہے۔

مصنف عبد الرزاق الصنعانی میں ہے:

''عن قتادة، عن عمران بن حصين في الذي يزني بأم امرأته، قد حرمتا عليه جميعا.''

( کتاب الطلاق، باب الرجل يزني بأم امرأته، وابنتها، وأختها، ج:7،ص:200،برقم:12776، ط:المكتب الإسلامي ،بيروت)

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

" فنقول: كما ثبتت حرمة المصاهرة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل عن شهوة عندنا سواء كان في الملك أو في غير الملك، ... ولكنا نستدل بآثار الصحابة - رضي الله عنهم -، فقد روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - أنه قال: إذا جامع الرجل المرأة أو قبلها بشهوة أو لمسها بشهوة أو نظر إلى فرجها بشهوة حرمت على أبيه وابنه وحرمت عليه أمها وابنتها. وعن مسروق - رحمه الله تعالى - قال: بيعوا جاريتي هذه أما إني لم أصب منها ما يحرمها على ولدي من المس والقبلة، ولأن المس والتقبيل سبب يتوصل به إلى الوطء فإنه من دواعيه ومقدماته فيقام مقامه في إثبات الحرمة كما أن النكاح الذي هو سبب الوطء شرعا يقام مقامه في إثبات الحرمة إلا فيما استثناه الشرع وهي الربيبة، وهذا لأن الحرمة تنبني على الاحتياط فيقام السبب الداعي فيه مقام الوطء احتياطا، وإن لم يثبت به سائر الأحكام كما تقام شبهة البعضية بسبب الرضاع مقام حقيقة البعضية في إثبات الحرمة دون سائر الأحكام، ولو نظر إلى فرجها بشهوة تثبت به الحرمة عندنا استحسانا، وفي القياس لا تثبت، وهو قول ابن أبي ليلى والشافعي - رحمهما الله تعالى - لأن النظر كالتفكر؛ إذ هو غير متصل بها. ألا ترى أنه لا يفسد به الصوم، وإن اتصل به الإنزال، ولأن النظر لو كان موجبا للحرمة لاستوى فيه النظر إلى الفرج وغيره كالمس عن شهوة، ولكنا تركنا القياس بحديث أم هانئ - رضي الله تعالى عنها - أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «من نظر إلى فرج امرأة بشهوة حرمت عليه أمها وابنتها» وعن عمر - رضي الله تعالى عنه - أنه جرد جارية، ثم نظر إليها، ثم استوهبها منه بعض بنيه، فقال: أما إنها لا تحل لك، وفي الحديث «ملعون من نظر إلى فرج امرأة وابنتها»، ثم النظر إلى الفرج بشهوة نوع استمتاع؛ لأن النظر إلى المحل إما لجمال المحل أو للاستمتاع، وليس في ذلك الموضع جمال ليكون النظر لمعنى الجمال فعرفنا أنه نوع استمتاع كالمس بخلاف النظر إلى سائر الأعضاء، ولأن النظر إلى الفرج لا يحل إلا في الملك بمنزلة المس عن شهوة بخلاف النظر إلى سائر الأعضاء، ثم معنى الشهوة المعتبرة في المس والنظر أن تنتشر به الآلة أو يزداد انتشارها، فأما مجرد الاشتهاء بالقلب غير معتبر.ألا ترى أن هذا القدر يكون من الشيخ الكبير الذي لا شهوة له، والنظر إلى الفرج الذي تتعلق به الحرمة هو النظر إلى الفرج الداخل دون الخارج، وإنما يكون ذلك إذا كانت متكئة أما إذا كانت قاعدة مستوية أو قائمة لا تثبت الحرمة بالنظر".

( کتاب النکاح، ج :4،ص : 207، 208،ط: دارالمعرفة، بیروت)

درج بالاتفصیل کی رو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیٹی  یا ساس کو شہوت سے چھو لیا تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائےگی ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں