بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے بیٹے سے زنا کرنے کا حکم


سوال

ایک بیوہ عورت نے زندگی کے 10 سال اپنے شوہر کے بغیر گزارے لیکن ایک رات اس پر اتنی شہوت طاری ہوئی کہ اس نے اپنے 15 سالہ بیٹے سے ہمبستری کرلی لیکن اگلے دن اس نے سچے دل سے توبہ کی۔ اب وہ عورت ماں بننے والی ہے اُس ہمبستری کی وجہ سے تو اس صورت میں کیا حکم ہے ؟

جواب

1)زنا  کرنا اور کرنے کا موقع فراہم کرناشریعت میں انتہائی مذموم عمل اور حرام ہے،اور پھر اپنے صلبی بیٹے کو زنا پر آمادہ کرنے کی قباحت تو اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

"ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی جس سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں ہوتی رہے گی"۔(مسند بزار،ج:10، ص:310)

البتہ دین اسلام میں مایوسی بالکل نہیں ہے، انسان خطا کا پتلا ہے، گناہ انسان کی فطرت میں داخل ہے، لیکن بہترین ہے وہ شخص جو گناہ کرکے اس پر قائم نہ رہے، بلکہ فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک) بہترین خطاکار وہ ہیں جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہوں۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

گناہ پر پشیمانی حیاتِ ایمانی کی علامت ہے، اور توبہ کی اولین شرط یہی ندامت و پشیمانی ہے، حدیث شریف میں ندامت کو ہی توبہ کہا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص اسی ندامت کے ساتھ گناہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی توبہ قبول فرما کر اس  کو معاف فرما دیتے ہیں۔ بلکہ توبہ کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں توبہ  کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں، مثلاً:

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ بواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گناہ گار بندوں سے ارشاد فرماتے ہیں:

’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.‘‘ [الزمر:53]

ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (کفر و شرک کرکے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بالیقین اللہ تعالیٰ تمام (گزشتہ) گناہوں کو معاف فرمائے گا، واقع وہ بڑا بخشنے والا، بڑی رحمت کرنے والا ہے۔‘‘ (بیان القرآن)

2)زنا کی وجہ سے اگر حمل ٹھہرجائے  تو   حمل ساقط کرنا جائز نہیں  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الذخيرة: لو أرادت إلقاء الماء بعد وصوله إلى الرحم قالوا إن مضت مدة ينفخ فيه الروح لا يباح لها وقبله اختلف المشايخ فيه والنفخ مقدر بمائة وعشرين يوما بالحديث".

(كتاب الحظر والإباحة،باب الاستبراء،ج:6،ص:374،ط: سعيد)

3)اور جہاں  تک نسب کی بات ہے تو زناسے پیدا ہونے والے بچے کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوتا ہے ،بلکہ مزنیہ سے ہوتا ہے ،لہذا صورت مسئولہ میں اگر بچہ پیداہوجائے تو اس کا نسب  ماں سے ثابت ہوگا۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(۔۔۔الولد للفراش) يعني: الولد يتبع الأم إذا كان الوطء زنا،هذا هو المراد هاهنا، وإذا كان والده وأمه رقيقين أو أحدهما رقيقا، فالولد يتبع أمه أيضا (وللعاهر الحجر) : أي: وللزاني الحجارة بأن يرجم إن كان محصنا، ويحد إن كان غير محصن، ويحتمل أن يكون معناه الحرمان عن الميراث والنسب، والحجر على هذا التأويل كناية عن الحرمان، كان يقال للمحروم: في يده التراب والحجر."

(كتاب النكاح،باب اللعان،ج،5،ص:2166،رقم:3312،ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410101218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں