بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے آپ کو مستحق زکوۃ ظاہر کرکے زکوۃ لینا اور زکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا ہوجائے گی؟


سوال

کوئی شخص جھوٹ بول کر کسی سے زکوۃ لیتا ہے، تو کیا  زکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا ہوجائے گی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  زکوۃ   کی رقم کسی مستحق کو دینے کے لیے اتنا کافی ہے کہ زکوۃ کی رقم دیتے وقت  اُس کے بارے میں یقین یا  غالب گمان یہ ہو کہ وہ مستحقِ زکوۃ ہے، اس سے زائد اُس کی تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے، اگر زکوۃ  ادا کرنے والے نے کسی کو مستحق سمجھ کر زکوۃ  ادا کر دی تو زکوۃ ادا ہو جائے گی، اور اگر کوئی غیر مستحق شخص  جھوٹ بول کر  اپنے کو مستحق زکوۃ ظاہر کرکے زکوۃ   کی رقم وصول کر لیتا ہے تو زکوۃ  ادا کرنے والے کی زکوۃ ادا ہو جائے گی،البتہ غیر مستحق شخص پر لازم ہو گا کہ وہ یہ رقم واپس لوٹائے،لیکن اگر زکوۃ دیتے وقت دینے والے کو یہ معلوم ہو کہ یہ شخص مستحق زکوۃ نہیں ہے،تب بھی اس کو زکوۃ دے دی،تو ایسی صورت میں معطی زکوۃ کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔

 فتاوی شامی میں ہے:

 "( وإن بان غناه أو كونه ذميًا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا) يعيد؛ لأنه أتى بما في وسعه، حتى لو دفع بلا تحر لم يجز إن أخطأ۔

وفيه: واعلم أن المدفوع إليه لو كان جالسا في صف الفقراء يصنع صنعهم أو كان عليه زيهم أو سأله فأعطاه كانت هذه الأسباب بمنزلة التحري كذا في المبسوط حتى لو ظهر غناه لم يعد."

(كتاب الزكوة، ج: 2، ص: 253، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا شك وتحرى فوقع في أكبر رأيه أنه محل الصدقة فدفع إليه أو سأل منه فدفع أو رآه في صف الفقراء فدفع فإن ظهر أنه محل الصدقة جاز بالإجماع، وكذا إن لم يظهر حاله عنده....وإذا دفعها، ولم يخطر بباله أنه مصرف أم لا فهو على الجواز إلا إذا تبين أنه غير مصرف، وإذا دفعها إليه، وهو شاك، ولم يتحر أو تحرى، ولم يظهر له أنه مصرف أو غلب على ظنه أنه ليس بمصرف فهو على الفساد إلا إذا تبين أنه مصرف، هكذا في التبيين".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں