بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے ذاتی ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے بینک کے ذریعے دوسروں کی رقم نکلوا کر دینا اور اس پر اضافی چارجز وصول کرنے کا حکم


سوال

میں اپنے مریض چچا کو شہر میں علاج کے لیے ہفتے میں دو دفعہ لے کے جاتا ہوں،  اور گاؤں والوں کے جو مسافر پاکستان کے مختلف علاقوں میں کام کرتے ہیں،  وہ اپنے گھر والوں کے لیے ایزی پیسہ پر رقم بھجواتے ہیں،  اب ایزی پیسہ والے ان سے ان کی  رقم کے مطابق کمیشن کاٹتے ہیں، میں نے اس کام  کے لیے خود کا ایزی پیسہ اکاؤنٹ بھی کھول دیا اور ساتھ میں بنک اکاونٹ بھی،  اور مجھ سے بنک والے ان پیسوں پر کوئی ٹیکس نہیں لیتے ہیں،تو  کیا یہ میرے لیے جائز ہے کہ میں ان سے وہ رقم کاٹ لوں  جو وہ ایزی پیسہ والا کاٹتا ہے؟  واضح رہے کہ میں اس کام کے لیے اسپیشل نہیں جاتا ہوں،  صرف  اپنے چچا کو علاج کے لیے لے کر جاتا ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایزی پیسہ کے ذریعے رقم نکالنے کی صورت میں اگر متعلقہ کمپنی  کچھ رقم کاٹتی ہے اور کٹوتی کے بعد باقی ماندہ رقم آپ کو ملتی ہے تو اس صورت میں آپ کے لیے گاہک (جس کی رقم ہے) سے صرف اُتنی رقم لینا جائز ہے جتنی کاٹی گئی تھی، اس سے زائد اس پر کچھ لینا جائز نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام ... (ولا يستحق المشترك الأجر ‌حتى يعمل كالقصار ونحوه) كفتال وحمال ودلال وملاح."

(كتاب الإجارة، ‌‌باب الإجارة الفاسدة، مطلب في أجرة الدلال، ٦ /٦٣ - ٦٤. ط: سعيد)

مجمع  الضمانات میں ہے:

"الأجير على نوعين: أجير مشترك ... فالأجير المشترك هو الذي ‌يستحق ‌الأجرة ‌بالعمل لا بتسليم النفس كالقصار والصباغ."

(باب مسائل الإجارة، القسم الثاني في الأجير،‌‌ المقدمة في الكلام على الأجير المشترك والأجير الخاص، ص:٢٧،  ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وأما شرائط الصحة ‌فمنها ‌رضا ‌المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا ... ومنها أن تكون الأجرة معلومة."

(کتاب الاجارۃ، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ٤/ ٤١١، ط؛دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100693

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں