بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے شوہر کو کافر اور کافر سے بد تر کہنے سے نکاح کا حکم


سوال

اگر بیوی اپنے شوہر کو کافر یا کافر سے بدتر کہے اور کافر کی اولاد کہے، ایسے الفاظ بول دے تو  نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟ اگر نکاح باقی نہ رہے تو تجدید نکاح کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حدیثِ مبارک  میں کسی مسلمان کو کافر کہنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ چناں چہ مشکاۃ   شریف میں ہے:

’’حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا۔‘‘

  یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)

دوسری روایت میں ہے:

’’حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہیے  اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حال آں کہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔‘‘

(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )

چنانچہ اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر یا مشرک کہے تو اگر کہنے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ مخاطب حقیقتًا کافر ہے (یعنی اسلامی عقائد رکھنے کی وجہ سے کافر سمجھتا ہے) تو پھر کہنے والے پر کفر لازم آتا ہے، اور  اگر کہنے والے کا یہ عقیدہ نہیں، بلکہ گالم گلوچ کے طور پر کہتاہے تو اس صورت میں کہنے والا کافر نہیں ہوگا، البتہ بغیر کسی سبب کے  ایسا کہنے والا قابلِ ملامت ہے،  اس لیے کہ کسی مسلمان کی ہتک وتوہین کبائر (بڑے گناہوں) میں سے ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ خاتون نے اپنے شوہر کو کافر اس عقیدہ کے ساتھ  کہا کہ وہ واقعتًا  کافر ہے  حال آں کہ حقیقتًا  وہ کافر نہیں ہے تو اس کا اپنا ایمان جاتا رہا، اس صورت میں تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح ضروری ہو گا اور اگر محض غصہ میں گالی کے طور پر ایسا کہا ہو تو وہ کافر نہ ہو گی اور تجدیدِ نکاح کی بھی ضرورت نہیں، لیکن  چوں کہ ایسا کہنا سخت گناہ کا کام ہے؛  اس لیے اس سے توبہ و استغفار لازم ہو گا۔

اسی طرح شوہر کو کافر سے بدتر کہنا یا کافر کی اولاد کہنا اگر گالی کی نیت سے کہا گیا ہے تو کہنے والی کافر نہیں ہو گی، اور اگر واقعتًا  اسلامی عقائد رکھنے کی وجہ سے کافر سمجھ کر کافر سے بد تر اور کافر کی اولاد کہا ہو  تو ایمان جاتا رہے گا اور تجدید ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی لازم ہو گا۔

تجدیدِ نکاح کا طریقہ یہ ہے کہ خطبہ نکاح پڑھنے کے بعددو مسلمان عاقل بالغ مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کیا جائے،  تجدیدِ نکاح کے وقت خطبے کی فضیلت بھی حاصل کرنی چاہیے،  مگر نکاح اس کے بغیر بھی درست ہے۔

الفتاوی التاتارخانیة (۵۱۳/۵):

"ولوقال لمسلم أجنبي: یا کافر، أو لأجنبیة: یاکافرة، ولم یقل المخاطب شیئاً، أو قال لامرأته: یا کافرة ولم تقل المرأة شیئاً … والمختار للفتوی في جنس هذه المسائل: أن القائل بمثل هذه المقالات إن کان أراد الشتم ولایعتقده کافراً لایکفر، وإن کان یعتقده کافراً فخاطبه بهذا بناءً علی اعتقاده أنه کافر یکفر". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں