بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے خاندان میں صدقہ فطر دینا


سوال

فطرانہ  اپنے خاندان میں دینا کیسا ہے؟

جواب

یاد رہے کہ آ دمی اپنے ماں ،باپ ،دادا ،دادی  ، نانا ، نانی ، اور بیٹوں ، بیٹیوں ، پوتے ، پوتیوں اور نواسے ، نواسیوں کو زکات وفطرانہ  نہیں دے سکتا  اور اسی طرح میاں  بیوی ایک دوسرے کو زکات اور فطرانہ نہیں دے سکتے۔

ان کے   علاوہ خاندان کے وہ افراد جو مستحقِ زکاۃ ہوں انہیں زکاۃ دے سکتے ہیں، خاندان میں  مستحقین کو زکات اور  صدقہ فطر دینے میں دُہرا اجر ہے،  ایک ادائیگی زکات اور صدقہ فطر  کا اجر، دوسرا صلہ رحمی کا اجر ،لہٰذا اپنے خاندان میں زکات اور صدقہ فطر  مستحقین افراد کو دینا چاہیے۔

مستحق سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے  مساوی نقدی یا کچھ سونا کچھ چاندی جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی ہو  یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے مساوی ہواور وہ سید بھی نہ ہو۔  

فتاویٰ شامی میں ہے : 

"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة.وفي الظهيرية: ويبدأ في الصدقات بالأقارب، ثم الموالي ثم الجيران."

(كتاب الزكاة ، باب مصرف الزكاة والعشر ، ج  : 2 ، ص : 346 ، ط : سعيد كراچي)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے : 

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج."

(كتاب  الزكاة ، الباب السابع في المصارف ، ج : 1 ، ص : 209 ، ط : دار الكتب العلمية)

فتح القدیر میں ہے :

"قالوا: الأفضل في صرفها أن يصرفها إلى إخوانه الفقراء ثم أولادهم ثم أعمامه الفقراء ثم أخواله ثم ذوي أرحامه ثم جيرانه ثم أهل سكنه ثم أهل مصره۔۔۔وأما النقل للقرابة فلما فيه من صلة الرحم زيادة على قربة الزكاة."

(كتاب الزكاة ، باب من يجوز دفع الصدقة إليه ومن لا يجوز ، ج : 2 ، ص : 283/84 ، ط : دار الكتب العلمية )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں