بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 ذو القعدة 1446ھ 11 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

اپنے حق کی وصولی کے لیےکب تک دعوی درست ہے ؟


سوال

 شرعی لحاظ  سے کتنے عرصے بعد تک اپنا موروثی حصہ لے سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کتنا لمبا عرصہ بھی گذجائے اپنا موروثی حصہ ختم نہیں ہوتا، لہذا وارث اپنا موروثی حصہ جب بھی لینا چاہے لے سکتاہے، اس کےلئے کوئی مدت مقرر نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"في الأشباه وغيرها من أن الحق لا يسقط بتقادم الزمان."

(کتاب القضاء، فصل فی الحبس، مطلب ھل یبقی النھی بعد موت السلطان، ج:5، ص:420، ط: سعید)

امدادالفتاویٰ میں ہے:

سوال: قدیم زمانے میں تمام معاملات اور دعاوی میں (سوائے اوقاف اور ایسے دعاوی کے جو منافع عام کے متعلق ہیں ) سماعت کے لیے پندرہ سال تک تحدید کردی گئی تھی ،جس کو علماء نے مرور زمانہ سے تعبیر کیا ہے اور عمل درآمد اسی پر رہاہے کہ اگر مدعا علیہ اسی قدر میعاد گذرجانے کی وجہ سے قابل سماعت نہ رہنے کا عذر پیش کرتا تھا تو اس کا عذر سناجاتاتھا بالفعل عثمانی حکام شریعت اور حکام عدالت دیوانی اس تحدید کے پابند ہیں ،کیا جناب کے نزدیک بھی اسی پر عملدر آمد ثابت ہے؟

جواب: چوں کہ قاضی کی ولایت امرسلطانی سے ثابت ہے تو سلطان نے جس قدر اس کو اختیارات دیئے ہیں ان سے زائد میں وہ قاضی ہی نہیں ،اس لیے اس کےاحکام ان امور میں نافذ ہوں گے ،پس جب سلطان نے اس کو کہہ دیا کہ اتنی مدت کے بعد تم دعویٰ نہ سننا اور بہ تصریح روایت فقہیہ قضا کی تقیید زمان ومکان کے ساتھ جائز ہے ،اس لئے معنی کلام سلطانی کے یہ ہوئے کہ تمہاری قضا خاص ہے ان ہی واقعات کے ساتھ جو اس میعاد کے اندر ہوں اور دوسرے واقعات میں ہم تم کو قاضی نہیں بناتے ۔یہ وجہ ہے قضا نافذ نہ ہونے کی اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقع میں صاحب حق کا حق زائل وباطل ہوجائے یا خود سلطان کو اس قید کا رفع کرنا جائز نہ ہو اور جب اس حکم کی علت معلوم ہوگئی تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ تقیید اسی وقت اور اسی شخص کے حق میں ہوگی  جو اس سلطان کا محکوم ہو اور جب تک  وہ سلطان زندہ رہے اور اپنے اسی حکم پر قائم رہے اور اگر کوئی حاکم وقاضی اس سلطان کے دائرہ حکومت سے خارج ہو یا وہ سلطان مرجائے جس کے مرنے سے بہ تصریح فقہاء اس کا حکم مرتفع ہوجاتاہے یا خود وہ سلطان اپنا حکم منسوخ کردے ، ان صورتوں میں یہ حکم نہیں ۔خلاصہ یہ کہ حکم مقصود شرعی نہیں بلکہ شعبہ ہے توکیل بامرخاص کا اس بناء پر سلطنت عثمانیہ کے حدود کے علاوہ میں ان روایات کو حکم فقہی سمجھ کر عمل کرنا جائز نہیں اور حدود عثمانیہ میں بھی صرف قضاۃ پرعمل واجب ہے ،نہ اہل حقوق پر۔

( کتاب الدعوی، ج:3، ص:417، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فلا تسمع الآن بعدها إلا بأمر إلا في الوقف والإرث ووجود عذر شرعي وبه أفتى المفتي أبو السعود."

(کتاب القضاء، فصل فی الحبس،القضاء مظهر لا مثبت ويتخصص بزمان ومكان وخصومة، ج:5، ص:420، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604101152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں