بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنا حق معاف کرنے کے بعد دوبارہ مطالبہ کرنا


سوال

  مسئلہ یہ ہے کہ عبد اللہ نامی ایک شخص نے رفاہ عام کے لئے ایک عمارت دلال کے واسطے سے خریدی، جس میں دلال نے 2500000 لاکھ روپے بطور دلالی کے طے کیے،معاملہ طے ہونے کے درمیان دلال نے 1000000 لاکھ روپے عبد اللہ کے پاس سے وصول کیے،اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دلال کو یہ خیال آیا کہ اس طرح کے رفاہی کام میں دلالی لینا میری غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔ لہذا وہ عبد اللہ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اس طرح کے نیکی کے کاموں میں دلالی لینا میرے لئے مناسب نہیں ہے اور میرے گھر والے بھی اس سے راضی نہیں ہیں؛لہذا میں اس معاملہ کی طے شدہ دلالی کی رقم لینا نہیں چاہتا،اور اب تک میں نے آپ کے پاس سے جو 1000000 لاکھ روپے وصول کئے ہیں وہ میرے پاس بطور قرض کے رہیں گے،جیسے ہی میرے لئے رقم کی ادائیگی کی سہولت ہو گی میں وہ رقم واپس لوٹا دونگا،اور جو مابقیہ 1500000 لاکھ روپے ہیں  وہ بھی میری طرف سے معاف ہیں ۔ اس معاملہ کے طے ہونے کے چند مہینہ کے بعد دلال کی نیت بدل گئی اور اس نے عبد اللہ کے پاس آکر کہا کہ مجھے اپنی دلالی کے مابقیہ پیسے لوٹا دو یعنی اب وہ اپنے کئے ہوئے وعدہ کے بر خلاف 1000000 لاکھ روپے واپس کرنے کے بجائے مزید 1500000 لاکھ روپے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ تو کیا شریعت اسلامی کی رو سے دلال کا معاف کئے ہوئے پیسوں کا دوبارہ مطالبہ کرنا جائز ہو گا اور صاحب معاملہ عبداللہ کے لئے پیسوں کی ادائیگی ضروری ہو گی ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب دلال نے اپناحق     رقم (2500000  لاکھ روپے) معاف کردیے تھے، تو وہ رقم معاف کرنے سے معاف ہوگئی تھی، اب دلال کے لیے دوبارہ اس رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے نیز 1000000 لاکھ  روپے جو قرض کے طورپر لیے ہیں اس کو  واپس کرنالازم ہے۔

قرآن کریم میں باری تعالي کا ارشاد ہے:

"وَأَوۡفُواْ بِٱلۡعَهۡدِۖ إِنَّ ٱلۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡـُٔولٗا."

[سورۃ الإسراء: 43] 

الفقہ الإسلامی وأدلتہ للزحيلی میں ہے:

"يصح ‌إبراء ‌الدين الثابت في الذمة... ويعد الإبراء من الدين تبرعا؛ لأن فيه معنى التمليك، وإن كان في صورة إسقاط."

(‌‌الفصل الرابع عشر: الإبراء، ‌‌المبحث الأول ـ تعريف الإبراء ومشروعيته، ج: 6، ص: 4370، ط: دار الفكر - سوريَّة - دمشق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الدين الصحيح (هو ما لا يسقط إلا بالأداء أو الإبراء) ولو حكما بفعل يلزمه سقوط الدين."

(‌‌كتاب الكفالة، ج: 5، ص: 302، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"هبة الدين ممن عليه الدين جائزة قياسا واستحسانا...  هبة الدين ممن عليه الدين وإبراءه يتم من غير قبول من المديون ويرتد برده ذكره عامة المشايخ رحمهم الله تعالى، وهو المختار، كذا في جواهر الأخلاطي."

(كتاب الهبة، الباب الرابع في هبة الدين ممن عليه، ج: 4، ص: 384، ط: دار الفكر)

شرح المجلۃ للاتاسی میں ہے:

"للواهب أن يراجع عن الهبة قبل القبض بدون رضا الموهوب له ... وهل يكره ذلك كما يكره الرجوع بعد القبض؟ الظاهر أنها لا تخلو عن الكراهة، لأن الرجوع ليس بأقل من الخلف بالوعد". 

(الفصل الأول في حق الرجوع عن الهبة ، ج: 3، ص: 393، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط الرجوع بعد ثبوت الحق حتى لايصح بدون القضاء والرضا؛ لأن الرجوع فسخ العقد بعد تمامه وفسخ العقد بعد تمامه لا يصح بدون القضاء والرضا كالرد بالعيب في البيع بعد القبض".

 (كتاب الهبة، فصل في حكم الهبة، ج: 6، ص: 128، ط: سعيد)

شرح المجلة میں ہے:

"وثبوت حق الرجوع للواهب قضاء لاينافي أن ذلك مكروه تحريمًا".

(الباب الثالث في أحكام الهبة، ج: 3، ص: 493، ط: رشيدية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"أما العوارض المانعة من الرجوع فأنواع (منها) هلاك الموهوب ... (ومنها) خروج الموهوب عن ملك الموهوب له ... (ومنها) موت الواهب، . . (ومنها) الزيادة في الموهوب زيادة متصلة . . . (ومنها) أن يتغير الموهوب .. (ومنها الزوجية) (ومنها القرابة المحرمية)".

(الباب الخامس في الرجوع في الهبة وفيما يمنع عن الرجوع ما لا يمنع، ج: 4، ص: 385، ط: ماجدية) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100610

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں